ٹی وی کی دوکان چلانے کے لئے زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کئے رکھنا ہوتا ہے۔سنسنی خیزی کے علاوہ چسکہ فروشی بھی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔اسی باعث گہری تحقیق کے بعد کینیڈا کے ایک رحجان ساز محقق مارشل میک لوہان نے آج سے تین دہائیاں قبل ٹی وی کو Idiot Boxپکارا تھا۔مرتے دم تک اصرار کرتا رہا کہ ٹی وی کا میڈیم سنجیدہ مکالمے کے قابل نہیں۔اس کے دعویٰ نے ٹی وی کی بدولت خودکو’’ذہن ساز‘‘ تصور کرتے’’نابغوں‘‘ کو بہت اشتعال دلایا۔ اس کا تمسخر اڑانے میں مصروف ہوگئے۔بالآخروہ درست ہی ثابت ہوا۔
میک لوہان گزشتہ دو دنوں سے مجھے بہت یاد آرہا ہے۔حکومت کی فراغت کے بعد میں تین سے زیادہ برسوں کے طویل وقفے کے بعد ایک بار پھر چند ٹی وی سکرینوں پر بطور ’’سینئرتجزیہ کار‘‘ نمودارہونا شروع ہوگیا ہوں۔ میرے چاہنے والے ا س کی وجہ سے خوش ہوئے۔ ان کی محبت نے مگر پریشان کردیا کیونکہ اکثر پروگراموں میں شرکت کے بعد ذہن میں یہ خلش اٹھتی رہی کہ میں سرخی پائوڈر لگاکر دوبارہ ’’پھکڑپن‘‘ کے ذریعے لوگوں کی توجہ کے حصول کے لئے مشغول ہوگیا ہوں۔زیادہ پریشانی اس وجہ سے بھی لاحق ہے کہ چند دنوں بعد شاید ایک ٹی وی چینل پر مجھے خود بھی ایک شو کا آغاز کرنا پڑے۔دیانت دارانہ جھجک کے باوجود بالآخر آمادہ ہوگیا۔کیونکہ’’روٹی تو کسی طور کماکھائے مچھندر‘‘۔آما دگی کے اظہار کے بعد مگر سرپکڑے ہوئے ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ ٹی وی سکرین پر لوٹنے کے بعد کیسا ’’سودا‘‘ کس انداز میں بیچوں اور ’’صحافی‘‘ ہونے کا بھرم بھی برقرار رکھ پائوں۔
اسی الجھن میں گرفتار ہوا اب اپنے کمرے میں بیٹھا اکثر ٹی وی ریموٹ بھی اٹھالیتاہوں ۔یقینا یہ جاننے کے لئے کہ ان دنوں کیا ’’بک‘‘ رہا ہے۔ اس تناظر میں جائزہ لیا تو بنیادی بات یہ دریافت ہوئی کہ عمران خان صاحب کا مسلسل تذکرہ ہی ٹی وی سکرین پر رونق لگانے کو کافی ہے۔ان کے خلاف جو مقدمات موجودہ حکومت نے قائم کئے وہ ساحل سمندر کی ریت پر لکھے حرفوں کی طرح اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے۔ حتیٰ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے الزام کے تحت لیا نوٹس بھی سابق وزیر اعظم کو جھکا نہیں پایا۔پیدائشی ڈرپوک ہوتے ہوئے مذکورہ مقدمے کے انجام کی بابت اگرچہ میں خاموشی کو ترجیح دوں گا۔جو ایف آئی آر البتہ عمران خان صاحب کے خلاف حکومت نے کٹوائیں ان کی بے اثری کا جائزہ لیا تو و ہ لطیفہ یاد آگیاجو انقلاب فرانس سے قبل وہاں گئے ہندو،مسلمان اور سکھ سے منسوب ہے۔وہ تینوں قتل کے الزام میں دھرلئے گئے تھے۔تینوں کے سرگلوٹین کے استعمال سے کاٹنے کا حکم صادر ہوا۔ اپنا سرگلوٹین کے نیچے رکھنے سے قبل تاہم ہندو اور مسلمان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی بے گناہی کی دہائی مچائی۔دونوں کے سر اس کے بعد محفوظ رہے کیونکہ گلوٹین سے جڑا چھرا نیچے گرنے میں ناکام رہا۔سکھ کو گلوٹین کی جانب لے جانے سے قبل ’’آخری خواہش‘‘ کی مہلت ملی تو اس نے جلادوں کو فقط یہ کہا کہ ’’پہلے اپنی مشین‘‘ تو ٹھیک کروائوں۔
مذکورہ لطیفہ میں بیان کردہ گلوٹین کی طرح ان دنوں کی حکومت کی کسی سیاسی مخالف کو شکنجے میں جکڑنے والی ’’مشین‘‘ بھی عمران خان صاحب کو گھیرنے کے حوالے سے ’’خراب‘‘ نظر آرہی ہے۔اس کی وجہ سے حکومت کی بھد اڑائی جاتی ہے تو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ یکے بعد دیگرے ٹی وی سکرینوں پرنمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ان کا ’’ڈنڈاسا‘‘کندہوا محسوس ہوتا ہے۔وہ مگر سلطان راہی کی طرح ’’سیدھا کردوں گا‘‘ کی دھمکی دہراتے رہتے ہیں۔میرے پسندیدہ سیاستدانوں میں شامل مولانا فضل الرحمن اگرچہ اب بھی انہیں ’’ڈنڈابردارحکیم‘‘ بناکر لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
عمران خان بمقابلہ رانا ثناء اللہ والا موضوع بھی تاہم بالآخر اُکتاہٹ کی نذر ہونا شروع ہوگیا ہے۔ٹی وی سکرینوں کی رونق برقرار رکھنے کے لئے ’’کچھ نیا‘‘درکارتھا۔ اس طلب کا مفتاح اسماعیل صاحب نے فائدہ اٹھایا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کی جانب سے ہوئے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے نئے وزیر خزانہ کو متنبہ کرنا شروع ہوگئے۔ ’’ڈار صاحب کو ان کا رویہ پسند نہیں آیا‘‘۔کیمروں کے روبرو بیٹھ کر اپنی پالیسیوں کے جارحانہ دفاع میں دبنگ انداز میں خطاب فرمانا شروع ہوگئے۔مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار صاحب کی ٹی وی سکرینوں پر ہوئی گفتگو نے مگر تاثر یہ پھیلانا شروع کردیا کہ مسلم لیگ (نون) کے جوتوں میں دال بٹنا شروع ہوگئی ہے۔
چند دوستوں کی بدولت مفتاح اسماعیل سے میری ذاتی شناسائی بے تکلفی کے دائرے میں داخل ہوچکی ہے۔بھلے آدمی ہیں۔ حس مزاح ان کی دوستوں کی محفل میں رونق لگادیتی ہے۔میں ان کی صحبت سے بہت لطف اٹھاتا ہوں۔ذاتی شناسائی کی بنیاد پر آج یہ انکشاف کرنے کو مجبور ہوں کہ جب عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کی گیم لگائی جارہی تھی تو وہ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے اس گروہ میں شامل تھے جو ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر عمران حکومت کی جگہ لینے کو آمادہ نہیں تھے۔’’گیم‘‘ مگر جب تیار ہوکر اپنے انجام کو پہنچی تو قابل ستائش جرأت کے ساتھ مفتاح اسماعیل وزارت خزانہ کا منصب لینے کو بھی تیار ہوگئے۔ اس حیثیت میں انہیں ’’ریاست کو دیوالیہ‘‘ سے بچانے کی خاطر ایک نہیں کئی سخت اور عوام کو اشتعال دلانے والے اقدامات لینا پڑے۔پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ اس ضمن میں نمایاں ترین تھا۔ ’’ریاست‘‘ بچانے کی خاطر لئے اقدامات نے تاہم مسلم لیگ (نون) کی ’’سیاست‘‘ کو یقینا شدید زک پہنچائی۔حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ مذکور ہ اقدامات کے بغیر آئی ایم ایف رام نہیں ہوسکتا تھا۔آئی ایم ایف تو رام ہوگیا مگر مسلم لیگ (نون) کی ’’سیاست‘‘ تباہ ہونے لگی۔اسے بچانے کے لئے اسحاق ڈار صاحب کو لندن سے وطن لاکر مفتاح صاحب کی جگہ بٹھانا پڑا۔
مفتاح اسماعیل جس انداز میں فارغ ہوئے اس نے انہیں جائز بنیادوں پر دل شکستہ بنادیا ہوگا۔سیاست مگر بہت ہی سفاک کھیل ہے۔اس کی بساط پر لگے مہرے پٹوانے ہی کے لئے آگے بڑھائے جاتے ہیں۔End Gameہی اس کھیل کا بنیادی ہدف ہوتا ہے۔مفتاح اسماعیل کو پٹواکر مسلم لیگ (نون)ڈار صاحب کے ذریعے ’’شہ مات‘‘ کی جانب بڑھنا چاہ رہی ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ وہ اس جانب بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔اس سوال کا جواب سنجیدہ بحث کا متقاضی ہے جو ٹی وی سکرینوںسے غائب ہے۔کاش ہمارے ٹی وی اینکر اس کی راہ نکال پاتے۔