اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ شرح تبادلہ میں بنکوں کے کردار کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں 8 بنکوں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بات قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہی ، مجلس قائمہ کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی صدارت میں ہوا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ تین بنکوں کو شوکاز نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں باقی بنکوں کے خلاف بھی تحقیقات کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی برجیس طاہر نے کہا کہ ان بنکوں کے خلاف اب تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں؟ اگر اب تک ان بنکوں کے خلاف کچھ نہیں ہوا تو آگے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے بتایا کہ ان بنکوں کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں، کسی نے تحقیقات سے نہیں روکا۔ چیئرمین قیصر احمد شیخ نے کہا کہ تین مہینے تک بنکس ڈالرز بناتے رہے۔ برجیس طاہر نے کہا جن بنکوں نے ملکی معیشت کا گلا کاٹا ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ڈار صاحب نے کہا ہے کہ ڈالر 200 روپے کا ہوگا۔ برجیس طاہر نے مزید سوال اٹھایا کہ یہ ڈالر کا کیا تماشا ہے؟ اور ڈالر کی وجہ سے بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ رکن کمیٹی علی پرویز ملک نے کہا ٹیکسٹائل سیکٹر 65 فیصد برآمدات کرتا ہے، اگر یہ سیکٹر تکلیف میں ہے تو ہر جگہ بات ہو گی۔ قیصر احمد شیخ نے اجلاس کو بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی اربوں روپے کی مشینری پورٹ پر پڑی ہے، مشینری لگانا پاکستان میں قابل عمل نہیں رہا، چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ آپ لوگ کہتے تھے سیاسی عدم استحکام کے باعث ڈالر بے قابو ہے۔ اسحاق ڈار کے آنے سے ڈالر ایک ہفتے میں 12 سے 14 روپے سستا ہو گیا۔ انہوںنے کہاکہ لوگ اسحاق ڈار کو ایس ایچ او کہتے ہیں، لوگ کہتے ہیں ایس ایچ او آیا اور ڈالر ٹھیک ہوگیا۔ وہ کون سے 8 بنک ہیں جنہوں نے اربوں ڈالر لوٹے ہیں۔ رکن کمیٹی برجیس طاہر نے کہاکہ ڈار کے آنے سے کون سا طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ ڈالر نیچے آگیا۔ کمیٹی ارکان نے کہاکہ ان بنکوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد کے مطابق اب تک دو ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس بھی معطل کر چکے ہیں، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہاکہ سٹیٹ بنک ثبوت کے ساتھ ایکشن ضرور لے گا، اگر سٹیٹ بنک کارروائی نہیں کرے گا تو وزارت خزانہ رجوع کرے گی۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہاکہ کرپشن روکنے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے۔ کمیٹی ارکان نے کہاکہ انٹربنک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں 10 روپے کا فرق بھی دیکھا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کہاکہ سٹیٹ بنک نے بطور ریگولیٹر بنکوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ کمیٹی اراکین نے کہاکہ ڈالر 245 سے بھی اوپر کیسے چلا گیا۔ اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے آئی ایم ایف پروگرام کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھایا۔ وزیر مملکت خزانہ نے کہا کہ کہ مفتاح اسماعیل کے دور میں اضافی پٹرولیم لیوی لگ گئی تھی ۔ وزیر مملکت نے کہاکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام سے ہٹنا نہیں چاہتا، پٹرولیم لیوی کو سہہ ماہی بنیاد پر ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ دو ماہ میں پٹرولیم لیوی کی مد میں 22 ارب روپے جمع کیئے گئے ہیں، آئی ایم ایف کی کسی شرط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کرونا کے دوران وزیراعظم فنڈ ریلیف پر ٹیکس چھوٹ دی، کرونا کے دوران 338 ارب کے ریفنڈز ادا کئے گئے۔
گورنر سٹیٹ بنک