من کجا تو کجا: یا رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم

سائنس کی ایک منطق کے مطابق اندھیرے کا کوئی وجود نہیں ہے روشنی کی عدم موجودگی کو اندھیرا کہا جاتا ہے کیونکہ جب روشنی آتی ہے تو اندھیرا ختم ہو جاتا ہے جس کی مثال کچھ یوں دی گئی ہے کہ اگر ایک حامل الوجود چیز کے ساتھ اگر کوئی دوسری حامل الوجود چیز رکھ دی جائے تو دونوں چیزیں موجود رہتی ہیں مگر جب اندھیرا ہو اور روشنی آجائے تو اندھیرا غائب ہوجاتا ہے تو ثابت ہوا کہ اندھیرے کا کوئی وجود نہیں ہے مگر اہل اسلام کو اس امر کا علم تو 1445سال پہلے سے ہے کہ جب سرزمین عرب پر کفر و الحاد کے گھٹا ٹھوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے اصنام کی پوجا کی جاتی تھی انہیں نعوذباللہ من ذالک خدا مانا جاتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے اور ان جھگڑوں میں سینکڑوں قتل الغرض اس وقت سر زمین عرب کفر و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی تو اللہ رب العزت نے آمنہ کے لعل رحمت اللعالمین ﷺ کو انوار رحمت بنا کر بھیجا اور آپﷺ نے کفر و الحاد کے اندھیروں میں اسلام کی شمع منور کی اور اسلام کے نور کو چار سو پھیلا دیا اور وہی سر زمین عرب جہاں جہالت کا دور دورہ تھا تہذیب و شائستگی ، اخوت ومروت ، بھائی چارہ ، انسانیت اور حسن اخلاق کا گہوارہ بن گئی ان کی با برکت اور عظیم شخصیت نے یثرب کی بستی کو مدینہ اور اپنی موجودگی کے باعث مدینہ کو منور کیا تو وہ مدینہ منورہ بن گیا۔ مدینہ شریف کا اصل نام یثرب تھا اور یہ ایک قریہ تھا عربی زبان میں قریہ کا مطلب گائوں یا بستی ہے اور جب آپ ﷺ کے قدم مبارک وہاں پہنچے تو یثرب کی بستی مدینہ بن گئی ۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں اور آپ کی مبارک موجودگی نے کفرو جہالت کے اندھیروں کو ختم کرکے مدینہ کو مدینہ منورہ بنا دیا۔ آپ ﷺ کی پیدائش گو کہ مکہ شریف میں ہوئی اور مکہ میں خدا کا گھر بھی ہے اور اللہ عزوجل جہاں رحیم و کریم ہے وہاں وہ صاحب جلال بھی ہے جبکہ آمنہ کا لعل صاحب الجمال ہے اور اس صفت حمیدہ کے باعث آپﷺ نے مدینہ ہجرت کی اور آج بھی مکہ کے لوگ طعبا جلالی اور مدینہ کے لوگ جمالی ہیں۔جب بات آپﷺ کے حسن وجمال کی ہورہی ہے تو یہاں حضرت مولانا کوثر نیازی کا یہ شعر کمال کا ہے 
نازاں ہو جس پہ حسن وہ حسن رسولﷺ ہے 
یہ کہکشاں تو آپ ﷺ کے قدموں کی دھول ہے 
حضرت مولانا کوثر نیازی کا یہ شعر ان کی بخشش کا سبب ہوگا کہ جس بھر پور انداز میں رسالت مابﷺ کے حسن و جمال کی تعریف کی گئی ہے یقینا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اسے شرف قبولیت بخشا گیاہوگا۔ کسی نے مولانا مرحوم سے استفسار کیا کہ محبوبﷺ خدا کے حسن کی تعریف تو بجا مگر کہکشاں آپﷺ کے قدموں کی دھول کیسے ٹھہری تو حضرت کوثر نیازی نے فرمایا کہ حضور ﷺ اقدس کے قدم مبارک معراج پر جاتے ہوئے جہاں جہاں پڑے وہ کہکشاں بنتی چلی گئی ۔اب ذکر معراج کا ہوا ہوتو قرآن کریم کے پندرہویں پارے میں اس کا ذکر کچھ یوں ہے کہ اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی اور آپ ﷺصاحب الاسرا و المعراج ہیں۔ رب کریم نے جب آپﷺ کو معراج پر بلایا تو آپﷺ نے مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر براق پر کیا۔
 بیت المقدس سے چھٹے آسمان تک آپ کو نور کے فرشتے لے گئے وہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور کریم ﷺ کو سدر المنتہی تک لے گئے اور انہوں نے حضور اکرمﷺ کو فرمایا کہ اس سے آگے میں ایک بال برابر بھی نہیں جا سکتا کہ تجلیات الہی میرے بال و پر جلا دیں گی اور سدر المنتہی سے قاب قوسین تک آپ رف رف کے ذریعے پہنچے اور اللہ رب العزت سے ملاقات کی اور سارا سفر صرف ایک رات میں طے ہوا یہاں ایک واقع کا ذکر بھی بر موقع ہوگا کہ آپ ﷺ نماز چاشت کے وقت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے قریب تشریف فرما تھے اور ذکر وتسبیح میں مشغول تھے کہ اتنے میں دشمن خدا ابوجہل کی نظر آپﷺ پر پڑی وہ خانہ کعبہ کے ارد گرد گھوم رہا تھا وہ رسول اکرمﷺ کے پاس آیا اور ازراہ تمسخر کہنے لگا کہ اے محمدﷺ کیا کوئی نئی بات پیش آئی تو حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ہاں آج رات مجھے آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور معراج کرایا گیا۔ اس نے قہقہہ لگایا اور استہزایہ انداز میں حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رات آپ ﷺ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، معراج پر لے جایا گیا اور صبح آپ ﷺ ہمارے سامنے ہیں اور گویا ہوا کہ اگر میں سب کو بلائوں تو کیا آپ ﷺ یہ بات سب کے سامنے کہہ دینگے آپ ﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو ابوجہل خوشی خوشی سب کو اکٹھا کرکے حضور اکرمﷺ کی یہ بات بتانے لگ گیا۔ لوگ تعجب کااظہار کرنے لگے اور اس خبر کو ناقابل یقین خیال کرنے لگے۔ یہی خبر چند لوگوں نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کو بتائی تاکہ وہ رسول کریم ﷺسے الگ ہوجائیں جو انکی خام خیالی تھی کہ صدیق اکبر اس خبر کی تکذیب کر دینگے جب حضرت ابو بکر نے یہ با ت سنی تو فرمایا کہ اگر یہ بات حضور اکرم ﷺ نے فرمائی ہے تو پھر یہ سچ ہے اور کہا کہ میں آپ پر اترنے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا اس بات کی تصدیق نہیں کروں گا اور وہ وہاں تشریف لے گئے جہاں حضورﷺ پاک معراج کا واقعہ سنارہے تھے تو ابوبکر صدیق تسلسل کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ''سچ فرمایا''،''سچ فرمایا'' اور اسی روز حضور ﷺ اکرم نے آپ کا نام صدیق رکھ دیا اور جس کا نام محمدﷺ نے رکھا ہو اس کی فضیلت کسی وضاحت کی محتاج نہیں اور پھر ہمیشہ آپ کو حضرت ابوبکر صدیق کہا گیا اور کہا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صاحب الاسرا و المعراج، وجہ تخلیق کائنات اور امام الانبیا کی تعلیمات اور فرمودات کو حرز جاں بنا کر اس کی پیروی کریں جس سے ہمارا دین و دنیا دونوں سنور جائیں گی اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک مسلمان تعلیمات ربانی اور فرمودات مصطفیﷺ پر عمل پیرا رہے دنیا میں حکمرانی کرتے رہے اور جب اغیار کی سازشوں کی بدولت ہم فرقوں میں بٹ گئے اور دین سے دور ہوتے چلے گئے تو یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام زبوں حالی کا شکار ہے ہم نے خدا کی وحدانیت اور رسول اکرمﷺ کے اتباع سے اجتناب کیا تو رسوائیاں ہمارا مقدر ٹھہریں۔ آج ہمیں اسکی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اسلام اور اسلام کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن