کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیر ے ہیں


بنا عشق نبیؐ جو پڑ ھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار اُن کو نہیں آ تی بخاری
حا فظ آباد سے متعلق مر حوم عا لم دین اور جو شیلے مقرر حا فظ پیر شبیر حسین شاہ جھو م جھو م کر یہ شعر پڑ ھتے تو محفل پر وحدا نی کفیت طار ی ہو جا تی.وہ در ست کہتے تھے کہ حب ر سولؐ اور عشق نبیؐ کے بغیر زند گی اور زند گی سے منسلک سر گر میو ں میں مصنو عی پن غا لب رہتا ہے،یہی با ت مو لا نا ظفر علی خان نے سمجھا ئی تھی
نہ جب تک کٹ مرو ں میں خو اجہ بطحا ؐ کی حر مت پر
خد اشاہد ہے میرا ایماں کا مل ہو ہی نہیں سکتا
حد یث مبار ک کا مفہو م ہے کہ جب تک مسلمان اپنی اولا د ،مال یایہا ں تک اپنی جان سے زیا دہ محبو ب خدا ؐکو  عزیز نہ رکھے اس کا ایمان مکمل نہیں ہو گا( بے شک ایسا ہی ہے)
شا عر مشرقؒ یاد آ گئے
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیر ے ہیں
یہ جہا ںچیز ہے کیا لو ح وقلم تیر ے ہیں
اب زرا ففھ  جنر یشن وار کی طر ف نظر ڈ الیں یورپ کی پور ی کو شش ہے کہ مسلم نو جوان کے د ل سے اسلام اور صا حب اسلا مؐ کی محبت کم کر دی جا ئے ،اس مذ مو م سر گر می کیلئے مغرب د ل کھو ل کر سر مایہ کاری کر رہا ہے۔سا مراج اپنی تمام تر کو ششو ں کے با وجو د مسلمانوں خصو صا نو جو ان کے دل سے نبی کر یم ؐ کی محبت،عقید ت اور عشق کی چنگار ی کم نہیں کر سکا۔ر بیع الا ول کے دوران گلی گلی  اورمحلے محلے نعت اور درود وسلام کی محا فل سے نوجو ان نسل کا جذبہ قا بل ر شک دیکھا جا تا ہے،اللہ پا ک ان جذ بو ں اور عقید توں کی شمع صبح قیا مت تک فروزاں رکھے۔آمین  عدل کی بالادستی کے حوالے سے اسوہ حسنہ میں ایسی عدیم المثال نظیریں موجود ہیں کہ انسانیت رشک کرتی رہے۔محسن انسانیت ؐ نے انسانیت کو عدل کی بالادستی کا درس دیااورایک بار جب ایک حد کے اجراسے روکنے کے لیے آپ ؐ پر دباؤ ڈالا گیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے بڑے جرم کرتے تو ان سے صرف نظر کرلیاجاتاتھااور جب ان کے چھوٹے طبقوں کے لوگ جرم کرتے تو ان پر قانون پوری قوت سے نافذ کردیاجاتا۔ایک اور موقع پر عدل کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے آپ ؐکے مبارک ارشاد کا خلاصہ ہے کہ اگرکسی مسلمان نے اسلامی ریاست کے کسی غیر مسلم (ذمی)پر زیادتی کی آپ ؐ نے فرمایاکہ اس مسلمان کے خلاف روز محشراس غیرمسلم کی طرف سے میں محمدؐ خود دعوی دائر کروں گا۔آپ ؐ نے ظلم کوقیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیراقراردیااور اس سے بچنے کا حکم دیااور ساتھ فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن حق والوں کے حق ضرور اداکرنے ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایاجس آدمی پر بھی اپنے بھائی کاکوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ دنیامیں ہی اس سے عہدہ براہو جائے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس دن کسی کے پاس درہم و دینارنہ ہوں گے ۔عدل نبوی ؐ کااس بات سے بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب بھی کسی کو حاکم بناکر بھیجتے یاکسی سرکاری امورکی بجاآوری کے لیے روانہ فرماتے یا زکوئی کی وصولیابی کے لیے تعینات کرتے تو عدل کادامن تھامے رکھنے کی ہدایات صادر فرماتے۔اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھاجب خیبر کے یہود اس بات کے منتظر تھے کہ اب انہیں غلام بناکراسلامی افواج میں تقسیم کردیاجائے گا، ان کی جائدادیں اور تیارفصلیں اجاڑ دی جائیں گی اور ان کی خواتین کو بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر لے جایاجائے گاکہ اس وقت تک یہی دستوردنیاتھالیکن وقت کی رفتار تھم گئی جب تاریخ انسانی کے مشاہدہ کار نے اس صفحہ ہستی پر پہلی بارفاتح اور مفتوح کے درمیان مزاکرات کے عمل کو جاری و ساری ہوتے دیکھااور فصلوں کی ایک نسبت کی تقسیم پرمعاہدہ نامہ طے پاگیااور پھر اگلی فصل پر جب ایک قاصد نبوی خیبرپہنچااورفصلوں کو نصف نصف تقسیم کیاگیاتواس قاصدنے یہود سے کہا کہ ان میں سے جو حصہ چاہو لے لواور جو جو تم چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے،اس پر خیبر کے یہود چینخ اٹھے کہ خدا کی قسم اسی عدل و انصاف کا حکم توریت میں ہمیں دیا گیا تھااور اسی عدل و انصاف کے حامل کی توریت میں پیشین گوئی تھی کہ وہ آخری نبیؐ ہو ں گے۔
 محسن انسانیت ؐ کی ختم نبوت کا  حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ؐ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپ ؐ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکاتھااورانسایت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی،آپ نے انبیائؑ کے اس درس انسانیت کی اس طرح تجدید کی کہ اس کا حق ادا ہو گیا،آپ ؐ کے گزرے آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس بیت چکے،اس دوران انسانیت نے بہت ترقی کر لی،علو م و معارف آسمان ثریاکو چھونے لگے ہیں،انسان کے قدم اس کائنات میں زمین سے کوسوں دور خلاؤں میں جا ٹکے ہیں،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہونے لگی ہیں،تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈانڈے مستقبل میں کمندیں ڈالنے کے قابل ہواچاہتے ہیں،فاصلے سمٹ گئے اوراور انسان اس جگہ پر پہنچ رہاہے۔

ای پیپر دی نیشن