پڑھتے پڑھتے بوڑھا ہو جاﺅں گا

عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com

بچہ جب تین سال کا ہو جاتا ہے تووالدین کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ چونکہ بچہ اب پڑھنے لکھنے کے قابل ہو گیا ہے چنانچہ اسے کیسے اس لائن لگایا جائے۔اس کا رحجان کیسے پڑھائی کی جانب مبذول کیا جائے۔پینسل پکڑنے سے لے کر سبق یاد کروانے تک کا عمل والدین کے لیے آزمائش ہے۔بچے سبھی ذہین ہوتے ہیںلیکن بنیادی بات دلچسپی کی ہے، کچھ بچے پڑھائی میں آگے ہوتے ہیں توکچھ کی ذہانت کھیل اور آرٹ میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایسے میں اگر بچہ پڑھائی میں دلچسپی لے رہا ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر بچہ ذرا سا بھی تنگ کرتا ہے ہچکچاتا ہے تو والدین کے لیے سختی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ 
 سختی کے دوران بچے معصوم جملوں کو استعمال کر کے بعض اوقات اچھے خا صے غصے کو بھی ٹھنڈ بھی کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں بچے کے معصومیت سے لبریز جملوں کو سوشل میڈیا صارفین سراہے بناء نہیںرہ   پارہے۔ 
ویڈیو میں نظر آنے والے بچے کی عمر لگ بھگ  تین سے چار سال کے درمیان معلوم ہورہی ہے۔ سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہنے بچہ جس کے ماتھے پر بال سلیقے سے جمے ہیں ، ہاتھ میں پینسل تھامے، اپنے آگے کاپی رکھے رورہاہے۔جبکہ روتے ہوئے اپنی ماں کو شکایتی انداز میں روزانہ پڑھائی سے اکتا کر روتے ہوئے فریاد کر رہا ہے۔
ویڈیو میں بچہ آنسوؤں کے ساتھ روتے ہوئے اپنی والدہ سے بولتا ہے کہ وہ زندگی بھر پڑھائی کرتے کرتے بڈھا ہو جائے گا جس پر اس کی والدہ بچے سے پوچھتی ہیں کہ پڑھائی کرنے سے بوڑھے کیوں ہو جائو گے ؟
تو بچہ روتے ہوئے معصومیت سے جواب دیتا ہے 'زندگی بھر پڑھائی کروں گا تو بڈھا ہو جاؤں گا' اور یہ جملہ وہ بار بار دہراتا ہے، جس پر بچے کی والدہ کہتی ہیں تو کیا ہوا پڑھ لکھ کر بڈھا ہو جانا، ان پڑھ رہ کر بڈھا کیوںہو نا ہے۔
بچے کایہ انداز دیکھنے والے سبھی پسند کر رہے ہیں اور اس کی بوڑھے ہونے سے متعلق تشویش سے بھی سب محظوظ ہو رہے ہیں۔
ماں بھی کیا کرے بچے کے اچھے مستقبل کے لیے اسے تھوڑی سختی کرنے پڑتی ہے۔ اور یہ سختی بچے کو بڑے ہونے کے بعد اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ کسی بہتر مقام تک پہنچ چکا ہو۔
ایسے والدین جن کے بچے پڑھائی میں سست ہوں اور ماں بھی ان پر سختی نہ کرنا چاہتی ہو تو اس کا حل ٹیوشن کی صورت میں ہی نظر آنے لگتا ہے۔یہ رواج عام ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے ذہن میں یہ تصور بیٹھ چکا ہے کہ چونکہ بچے والدین سے ناز نخرے اٹھواتے ہیں لہذا اسی وجہ سے وہ پڑھائی میں بھی والدین کی بات نہیں مانتے۔
اس کا حل ٹیوشن نہیں ہے۔ کیونکہ ماں اپنے بچے کی جتنی اچھے طریقے سے نفسیات جانتی ہے شاید ہی کوئی باہر کا شخص جان سکے۔ہر ماں یہ جانتی ہے کہ اس کا بچہ کس بات پر چڑتا ہے، سہمتا ہے یا خوش ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایسے بچے جو پڑھائی کے وقت تھوڑا تنگ کرتے ہوں تو انھیں ان کی نفسیات دیکھ کر پڑھائیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچے پڑھنا نہیں چاہتے، کتابوں سے نفرت ہوتی ہے، سکول بھی جاتے رہتے ہیں، کھیل کود کر واپس آجاتے، استاد کی مار بھی خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔ ایسے طلبا کو ہم اکثر نالائق کہہ کر اگنور کر دیتے ہیں جبکہ یہ لوگ ٹاسک بیسڈ لرننگ کو ترجیح دیتے ہیںان بچوں یا باقی بچوں کیلئے لازمی والدین اور اساتذہ کو مہارت حاصل کرنی چاہئے۔ مثلا ایک بچہ کاغذ پر ڈرائنگ کرنے کو بوجھ سمجھ رہا تو پینٹ کا ایک ڈبہ لا کر دیوار پر پینٹنگ شروع کروادیں بس شرط یہ ہے کہ اس دیوار کا پینٹ واش ایبل اور واٹر پروف ہو۔ اسے ہی ٹاسک بیسڈ لرننگ کہتے ہیں۔ املاء نہیں لکھنا چاہ رہا اسکے سامنے اردو کا کوئی کارٹون لگا دیں اور کہیں کہ اس میں جو بھی چیز نظر آتی ہے اسکا نام لکھو اور کارٹون کو وقتی طور پر روک دو۔اس کے علاوہ ریڈنگ کا دل نہیں کر رہا تو کسی فلم کے کیپشن کو پڑھنے پر لگا دیا۔ اس طرح کچھ عرصہ بعد یہ بچے کتابیں پڑھنا شروع بھی کر دیتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن