امیر محمد خان
شاہدرہ کے پنجاب کے تعلق سے جہاں مسلم لیگ ن کا ایک زمانے میں گڑھ تھا ‘ جلسہ کہنا زیادتی ہوگی ، اسے سیاسی زبان میں جلسی کہا جاسکتا ہے اگر وہ جلسہ یا جلسی کامیاب ہوتا یا ہوتی تو مریم بی بی جو مسلم لیگ ن کا یہ ہی بیانیہ ہوتا کہ عوام نے ریفرنڈم میں مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سیاست دان کسی بھی محلے ، کسی شہر ، یا کسی میدان میں جلسہ کرکے اگر وہان لوگ زیادہ ہ آجائیںاسے پاکستان کے 25کروڑ عوام کا اپنے حق میں فیصلہ کہتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے بھی شاھدرہ کے جلسے یا جلسی پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وہاں کے مسلم لیگیوں کو سرگرم نہ ہونے ، عوام کو زبردستی گھسیٹ کر نہ لانے پر مجوزہ انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے کی دھمکی دی ہے ۔ عوام کو گھسیٹ کر لانے کا ذکر ا سلئے کہا ہے اسوقت عوام کسی بھی جلسے میں جلسی پر سنجیدہ نہیں ہیں انہیں اپنی روٹی ، روزگار ، ضروریات زندگی کے حصول کی فکر ہے جو اسوقت کسی بھی سیاست دان کے پاس نہیں ہے پی پی پی ، تحریک انصاف ، جمعیت علماءاسلام ف ، یا پی پی پی جب اقتدار میں تھے عوام کو کچھ نہ دے سکے تو اب پھرجب وہ میوزیکل چئیر کے کھیل میں جا رہے ہیں اور ہاتھ میں صرف اپنے دور اقتدار میں کمایا ہوا پیسہ ہے ( جووہ عوام کو دے نہیں سکتے) عوام کو دینے کیلئے ایک مرتبہ پھر سنہری وعدوںکے علاوہ کچھ نہیں، گزشتہ شائد دس برسوںسے سیاست دانوںنے جانے کیوں ملک کے حفاظت کرنے والے اداروں، انکے ذمہ داران کے خلاف بیانئے بنا کر ، اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب اسطرح کے بیانیوں کا 9 مئی کے بعد ”دھڑن تختہ “ ہوچکا ہے ۔ 9 مئی تو انتہا تھی اس سے زیادہ تو اب کچھ ہو نہیں سکتا چونکہ اب محافظ ادارے نہیں عوام ماریںگے ایسے لوگوںکو ، محافظ ادارے کہتے ہیںکہ ہمیں سیاست سے دور رکھو ، میاںصاحب نے بھی نہ جانے کس کے کہنے پر بدلہ لینے کا بیانیہ دیا ، بھلا ہو شہباز شریف کا انہوںنے لندن ،پاکستان کے بھاگم بھاگ سفر کرکے بڑے بھائی کو یہ بیانیہ تبدیل کرنے کی درخواست کی ورنہ یہ واپسی 21 اکتوبر 2023 نہیں شائد 21 اکتوبر 2024 ءہوتی بیانیہ تبدیل ہوا اور کہا گیا کہ میاں صاحب نے یہ بات اللہ پر چھوڑ دیا ہے ۔ ۔ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے ملک میں موجود مسلم لیگی ن کے سیاست دان کہتے ہیں میاںصاحب کی واپسی ملک میںخوشحالی کی صبح لیکر آئے گی (عوام دانتوں میں انگلی دبا کر کہہ رہے ہیں وہ کیسے ) اسکا جواب کسی کے پاس نہیں ، مسلم لیگی کہتے ہیں میاں صاحب کی واپسی عوام کو مہنگائی سے چھٹکارہ دلائے گی ، اس پر بھی عوام اپنے دانتوں سے انگلی نہیں نکال پاتے ، اسکا مطلب شائد یہ ہے کہ نگراںحکومت اس سب کی ذمہ دار ہے آج کی تاریخ میں ، جبکہ وہ تو نگران ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ ہمارا کام انتخاب کے بعد بہ حفاظت کامیاب لوگوںکو اقتدار سونپ دینا ہے ۔ حاضر اسٹاک میں سابق حکومتی جماعتوںکی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اسلئے اگر نگران حکومت اپنے اس فیصلے پر قائم رہی تو انہیں انتخابات کے بعد ”اقتدار کس کو دیں “کابیانیہ بنانا پڑے گا چونکہ عوام تو سنگین حد تک ناراض ہیں کسی ایک سیاست دان سے نہیں بلکہ سب سے کہ ہماری زندگیاں اجیرن کرنے والے یہ ناکارہ سیاست دان ہیں کبھی کوئی کبھی کوئی ۔ عوام کے پاس تعلیم کا فقدان ہے تلاش معاش کی کوششوںنے انکی سوچ کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ دراصل انتخابات نوازشریف ، شہباز شریف ، پی پی پی یا کوئی اورنمایاں نہیںجیتا ، ان لوگو ں کو مسند اقتدار پر
©©الیکٹبلز لاتے ہیں ، جو جاگیر دار، سرمایہ دار ہوتے ، سردار ، یا کوئی اور ہوتے ہیں جو صرف اپنے زیررعایا کو حکم دیتے ہیں وہ پولنگ بوتھ پہنچ کر ہدائت کے مطابق ووٹ ڈالتے ہیں، اور کامیابی پر وہ جاگیر دار، یا اشرافیہ کی مخلوق سے تعلق رکھنے والا اپنے ووٹرز کا سود ا کرکے معروف سیاست دان کی جماعت کا رخ کرتاہے ، کسی سیاسی جماعت کو کوئی نظریہ نہیں ہوتا انہیںصرف اقتدار حاصل کرنے کی جلدی ہوتی ہے جماعت میں کون شامل ہورہا ہے اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ میاںصاحب کے حوالے سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کردیا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی کے حوالے سے وزارت قانون سے مشورہ کریں گے ، قانون اپنا راستہ بنائے گا ، موجودہ چیف جسسٹس قاضی صاحب کی موجودگی میں قانون کا راستہ جسطرح پہلے نکلتا تھا وہ اب مشکل ہی نہیںشدید مشکل ہے ۔ میاں صاحب پچاس روپے کے ضمانتی کاغذپر علاج کیلئے گئے ضمانتی وقت ختم ہوگیا وہ نہیںآئے ، تو شائد مفرور ٹہرائے گئے اب خیر سے پاکستان آرہے ہیں یہ انکا ملک ہے وہ ضرور آئیں تین دفعہ وزیر اعظم رہے ، انکا گلہ ہے کہ انہیں غیر قانونی طور پر ہر دفعہ ہٹایا گیا اس میں سچائی بھی ہے کہ کس طرح ”ٹرائیکا “نے سازش کی اور کرپشن کے کیس کو صرف اقامہ ہونے پر اسطرح سیاست سے بے دخل کردیا جسطرح سعودی عرب میںکسی بھی غیر ملکی کو اقامہ نہ ہونے پر ملک سے نکال دیا جاتاہے سعودی عرب میں تو قانون سمجھ میںآتا ہے مگر عدالت کا قانون سمجھ سے بالا تر ہے کہ اقامہ رکھنے پر اتنی کڑی سزا کا مستحق پایا جائے میاں نوازشریف کے ساتھی مشرقی لاہور میں ان کے استقبال کے لیے ایک بڑے جلسے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جب کہ عبوری انتظامیہ نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کس طرح نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گزشتہ دن نگران وزیر داخلہ نے بھی سابقہ وزیر داخلہ کو انکی شکائت پر جواب پریس کانفرنس میں دیا اسی پریس کانفرنس میںانہوںنے جب میاں نواز شریف کی بہادری کی تعریف کہ وہ بہادر ہیںاپنی صاحبزادی کے ساتھ ملک آکر گرفتاری دی تو اسوقت نگران وزیر اطلاعات جسطر ح نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو غور سے دیکھ رہے تھے انکا چہرہ بتاریا تھا کہ وہ میاں صاحب کے متعلق بیان پر شائد مطمئن نہیں تھے ۔ نگران وزیر اعظم اپنے بیانات بہت واضح انداز میں کہتے ہیں انہوںنے سابق وزیر اعظم 9 مئی فیم عمران خان کے متعلق سوال کے جواب میں انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی نگران وزیر اعظم کاکڑ نے کہا کہ اس پر بات قبل از وقت ہے اور یہ میرے مینڈیٹ سے باہر ہے ۔ 21 اکتوبر کو آنے والے میاں نوازشریف قسمت کے دھنی ہیں انکی حکومتیں تین دفعہ برطرف ہوئیں ، اسحاق خان کے حکومت میں انہوںنے کہا میںڈیکٹیشن نہیںلونگا ،برطرف ہوئے عدالت نے انہیں بحال کردیا ۔ مشرف کا دور بہت انکے لئے سنگین سزا لیکر آیا ، دوست ممالک آڑے آگئے ملک سے باہر بہ حفاظت بھیج دئے گئے ، بھاری مینڈیٹ کے باوجود انہیںنوازشریف نے ایک بار پھر خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا۔پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل منصور الحق کو کرپشن کے الزامات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ہیوی مینڈیٹ کو عدالت کے ہتھوڑے سے کچلنے کی کوشش کی مگرنہ صرف انہیں گھر جانا پڑا بلکہ ان کی سرپرستی فرمانے والے صدر فاروق لغاری بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی تو انہیں گھر بھیج دیا۔ نوازشریف کے دماغ سے سویلین بالادستی کا خناس نکالنے کیلئے پرویز مشرف نے عمر قید کی سزا دلوائی ۔ منصوبہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کروایاجائے ، اب رہا سوال پی پی پی کے بلاول بھٹو کا انتخابات فوری کرانے کی جلد بازی یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ انہیںسندھ کے علاوہ کیا ملے گا ایک مرتبہ پھر ۔
والہانہ استقبال کی تیاری اور شاھدرہ کی جلسی
Oct 05, 2023