سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
نواز شریف یقینا قوم کے تجربہ کار مضبوط اور تنو مند سیاست دان ہیں جو 3مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔یہ بد قسمتی ہے کہ نواز شریف کسی بھی دور میں پانچ سالہ آئینی مدت مکمل نہیں کر پائے۔ہر دور میں ہی ان کو مختصر مدت کے بعد رخصت ہونا پڑا اور رخصت بھی اس انداز میں ہوئے کہ ان کو ملک سے باہر بھی جانا پڑتا تھا۔اسی طرح عمران خان کو بھی وزارت عظمی ٰ اور حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے اور وہ بھی اپنی مدت مکمل نہیں کر پائے ،ایسا کیوں ہو تا رہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ؟جہاں پر اس کی کئی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں وہیں پر ایک بڑی وجہ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ ہے۔اس ملک میں مقتدر حلقوں نے ہی اپنی من مرضی کی ہے اور اور سیاست کے میدان میں بھی وہ طویل عرصے سے بر سر پیکار رہے ہیں ،ان کا مقصد یہی رہا ہے کہ جو بھی وزیر اعظم ہو وہ ان کے طے کردہ پیرا میٹرز میں ہی کام کرے ،یہ دیکھنے کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کے حکمرانوں سے چاہتی کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب کافی سادہ ہے اور میں یہ جواب اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اپنے حکمرانوں سے صرف اور صرف اچھی حکمرانی ،گڈ گورننس چاہتی ہے اور اس ملک کو ایک اقتصادی قوت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے لیکن آج تک ہمارے حکمران اس حوالے سے ڈیلور نہیں کر پائیں ہیں اور معاشی اور اقتصادی صورتحال کے ساتھ ساتھ گورننس کے مسائل بھی گھمبیر سے گھمبیر تر ہو تے چلے گئے ہیں۔اس صورتحال میں یقینی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ہمیں اگر اس ملک کو لے کر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے رویوں اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ ایک روشن مستقبل کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل امر ہے۔اگر اس ملک میں سیاسی حکومتیں بہتر اقتصادیات کی تشکیل میں ناکام رہی ہیں تو اس میں کرپشن کا بھی ایک مرکزی کردار رہا ہے جو کہ بد قسمتی کے ساتھ ہمارے ملک میں بہت تیزی کے ساتھ پھل پھول رہی ہے۔اس روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔تب ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔آج ہم اقوام عالم میں کرپٹ ملکوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔جہاں پر بھی کرپشن اتنی زیادہ ہو بد انتظامی حدوں کو چھو رہی ہو ،وہاں پر اسٹیبشلنٹ سیاسی سپیس بھی بہت ہی آسانی کے ساتھ لے سکتی ہے۔اگر ہمیں بلکہ کہنا چاہیے کہ اگر ہماری سیاسی حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اور کوئی مداخلت نہ کرے تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ پاکستان کی معیشت اور گورننس کو درپیش درینہ مسائل جن میں کہ کرپشن بھی شامل ہے ،کا سدباب کیا جائے جو بھی مسائل اس ملک کی معیشت کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ان کا حل کیا جائے۔یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے ،اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اب ایک احتساب کو فوقیت دیتے ہوئے ، ایک نیا نظام تشکیل دے جس میں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شفاف انداز میں معاملات کو لے کر آگے بڑھا جائے۔احتساب کے حوالے سے بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک سمجھوتہ کیا جائے اور پھر اس کے بعد مل کر چلا جائے ہمارے ملک میں سیاسی سمجھوتے جنہیں میثاق کا نام دیا جاتا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہیں ،میثاق جمہوریت پہلے بھی ہو تے رہے ہیں ،اور پہلا سیاسی سمجھوتہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوا تھا لیکن آگے چل کر اس میثاق کو توڑ دیا گیا اور اس کی وجہ سے پیپلز پا رٹی نے بہت نقصان بھگتا اور عوام نے بھی اس ہی وجہ سے نقصانات کا سامنا کیا۔اس قوم نے ہمیشہ ہی اپنے لیڈران کو چنا ہے ان کو بنایا ہے لیکن کیا کہا جائے اس ملک کے لیڈرز کا وہ بھی تو کسی سے کم نہیں ہے لگتا ایسا ہے کہ خود ہی اپنے آپ کو خراب کرنے میں لگے رہتے ہیں اور خود غلط فیصلوں کی وجہ سے خراب ہو تے ہیں۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس ملک کی بیو رو کریسی لائق نہیں ہے یا ملک کو آگے لے کر چلنے کے قابل نہیں ہے ،تجربہ کار بھی ہے لیکن پھر آخر مسئلہ کہا ں ہے آتا ہے ؟یہ چیز دیکھنے کی ضرورت ہے ہماری بیو رو کریسی کو سیاسی سپورٹ حاصل نہیں ہے اور اگر کسی حد تک کچھ مل بھی جائے تو مکمل طور پر نہیں ملتی ہے جس کے باعث مسائل پیدا ہو تے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیو رو کریسی کو کبھی بھی وہ سپورٹ نہیں ملی جو کہ انہیں ملنی چاہیے تھی۔بیو رو کریسی سے کام کروانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کی عزت کا اور ان کے مقام کا خیال رکھا جانا چاہیے اس کے بغیر کوئی کام آگے نہیںبڑھائے جاسکتے ہیں۔ہمارے ملک میں بد قسمتی سے بیو رو کریسی کو کمزور اور ناکام کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جو کہ عوام اور ریاست کی کمزوری اور نقصان کا باعث بنی ہیں۔بہت ساری الجھن ہیں اور بہت سارے مسائل ہیں جو کہ ہم نے خود پیدا کیے ہیں اور ہمیں ہی ان کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔یہ وقت کی ضرورت ہے اس وقت جو ملک کے حالات ہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان حالات میں بیرون ملک کسی بھی ملک کا کو ئی ہاتھ ہے یہ سب کچھ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔اگر بیرونی قوتوں کی کو ئی مداخلت ہے تو وہ امن اور امان کی صورتحال خراب کرنے کی حد تک محدود ہے اور باقی معاملات ہمارے ہی پیدا کر دہ ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں یقینا بیرونی ہاتھ ملوث ہے ،بہر حال ملک میں بہت سارے مسائل ہیں کئی موجودہ خطرات ہیں جو کہ ہماری ،غلطیوں ،کو تاہیوں اور خود غرضیوں کا نتیجہ ہیں۔اس صورتحال کا حل کیا ہے اور مسائل کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں ؟ یہ سوال سب کے ذہنوں میں ہے۔یہ صورتحال بہتر کرنے کی صورت یہ ہی ہے تمام سیاسی قیادت مل کر بیٹھے اور ملک کو آگے لے جانے کی راہیں تلاش کریں ،ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا نہ صرف عزم کیا جائے بلکہ اس کے لیے دیر پا اور ٹھوس حکمت عملی بھی ترتیب دی جائے۔ماضی کی غلطیوں کو نہ دوہرانے کا عزم کیا جائے۔قوم کا اپنے لیڈروں سے یہی تقاضہ ہے کہ خدارا رہبر بنیں کچھ اور نہ بنیں ملک کو آگے بڑھائیں۔
نواز شریف : خوش بختی اور مسائل کے درمیاں
Oct 05, 2023