نوازشریف کا سیاسی میدان میں طاری جمود توڑنے کیلئے وطن واپسی کا مشورہ

فرحان انجم ملغانی
موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیاسی موسم بھی تیزی سے تبدیل ہوتا دکھائی دیے رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان سے سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی محسوس ہورہی ہے کیونکہ اسوقت ملکی سیاست پر ایک جمود سا طاری ہے ، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں انکے نائب مخدوم شاہ محمود قریشی کو بھی دوبارہ پاپند سلاسل کرلیا گیا ہے ، ایک پاپولر سیاسی جماعت کی قیادت منظر عام پر نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی میدان میں جو جمود طاری ہے اسکو کوئی قدآوور سیاسی شخصیت ہی توڑ سکتی ہے اس لئے مسلم لیگ ن اور انکے خیر خواہوں نے میاں محمد نواز شریف کو وطن واپسی کا مشورہ دیا ہے اور میاں محمد نواز شریف کی جانب سے رواں ماہ کی 21 تاریخ کو وطن واپس آنے کا اعلان کیا گیا ہے اور انکی واپسی کی ٹکٹ بھی بک کروا لی گئی ہے اس سے قبل بھی وہ وطن واپسی کے اعلانات کر کے ہیں مگر اپنے بھائی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی وہ وطن واپس نہیں آئے اور مناسب وقت پر واپسی کا عندیہ دیتے رہے مگر اس بار انہیں "ماحول" سازگار ہونے کی یقین دھانی کروائی گئی ہے اس لئے تاحال میاں محمد نواز شریف وطن واپس آنے کا قوی ارادہ رکھتے ہیں اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے اپنے قائد کے بھرپور استقبال کیلئے پارٹی کے سرکردہ رہنماو¿ں اور ورکروں کو بڑی تعداد میں عوام کو باہر نکالنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے ، پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے ورکرز کو متحرک کرنے کیلئے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کردیا ہے اور آنے والوں دنوں میں اسمیں مزید تیزی دکھائی دے گی۔اس ضمن میں ملتان سمیت جنوبی پنجاب سے بھی کارکنوں نے اپنے قائد کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی ہیں، سابق ایم این اے ملک عبدالغفار ڈوگر کی جانب سے قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کے استقبال کے حوالہ سے اپنے حلقہ احباب کی میٹنگ مقامی ریستوران میں منعقد کی اور پرتکلف عشائیہ دیا گیا جس میں بڑی تعداد میں ان کے حلقہ سے چئیرمین وائس چیئرمین کونسلر حضرات اور کارکنان نے شرکت کی ۔ اجلاس میں ملتان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل و سابق رکن قومی اسمبلی شیخ محمد طارق رشید، سابق ایم پی اے پی پی 217 سلمان نعیم، پاکستان مسلم لیگ ن ملتان ڈویژن کے انفارمیشن سیکرٹری سعد خورشید خان کانجو سمیت دیگر کارکنوں نے شرکت کی اور 21 اکتوبر کو ملتان سے بڑی تعداد میں عوامی ریلی کو لاہور لیجانے اور اپنے قائد کا تاریخی استقبال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں جاری کردی ہیں ان نئی حلقہ بندیاں پر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور نئی حلقہ بندیاں کو چیلنج کرنے کے اعلانات جماعتی اور انفرادی سطح پر کئے جارہے ہیں ، ضلع ملتان میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کم کرکے متعدد علاقوں جو نئے حلقوں میں شامل کیا گیا ہے، اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر ملک عامر ڈوگر نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہو کہا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی تکمیل اورمنظوری کے بعدقانون گوئی حلقہ، پٹوارسرکل،مواضعات، چارج اورشماریاتی سرکل کی آبادیوں کے تفصیلی اعدادوشمار جاری نہ کرنا حکومتی بدنیتی کامظہر ہے ۔ مفادعامہ اورعوام الناس کی معلومات کےلئے علاقوں کی آبادیوں کو شائع کرنا مردم شماری عمل کا بنیادی عنصر ہے۔ حلقہ بندیوں میں آبادی کا فرق قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جس کا فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک پاکستان (FAFEN) نےبھی اپنی رپورٹ میں ای سی پی (الیکشن کمیشن آف پاکستان) کی تجویز کردہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 180 سے زائد حلقو ں کی آبادی میں 10فیصد سے زیادہ تفریق کی نشاندہی کرکے پردہ چاک کردیا ہے۔جس کو ہم یکسرمسترد کرتے ہوئے نئے سرے سے صاف اور شفاف حلقہ بندیاں کرنے کا پرزورمطالبہ کرتے ہیں۔ فافن کے مطابق مجوزہ حلقہ بندیوں میں آبادی کا 10 فیصدسے زیادہ تفاوت غیرقانونی، رولز کی خلاف ورزی اور مساوی رائے دہی کے اصول کے سراسر خلاف ہے۔ معلومات تک رسائی سیاسی قائدین، عوامی نمائندوں اور ووٹرزسپورٹرز کا قانونی حق ہے ۔جس سے ان کو عملاً محروم رکھا جارہا ہے۔جس پر شکوک وشبہات اور کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس پرانہوں نے بتایا کہ سابقہ ساڑھے 47 لاکھ آبادی کے مطابق ضلع ملتان میں قومی کے چھ اور صوبائی اسمبلی کے تیرہ حلقے تھے اورموجودہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد آبادی 54لاکھ ہوگئی ہے۔ جس میں ساڑھے چھ لاکھ اضافے کے باوجودایک قومی اور دوصوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اضافے کی بجائے سازشی اربابِ اختیار نے ضلع ملتان میں ایک صوبائی حلقہ کم کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شماریاتی چارج، سرکل، بلاک کوڈ، قانون گوئی حلقہ اور پٹوار سرکل انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔جبکہ موجودہ حلقہ بندیوںمیںنیچرل باو¿نڈری کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس حلقہ بندی پر مجھ سمیت ملتان کے شہری سراپا احتجاج ہیںاور اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
 سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی سیاسی میدان میں متحرک دکھائی دیتے ہیں اور تواتر کیساتھ اپنے انتخابی حلقوں کی عوام کیساتھ رابطے میں ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں قائم ہونے والی ایک نئی جامعہ کی افتتاحی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہےں۔ جب میں وزیراعظم بنا تو دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی۔ ہم نے قبائل سے بھی بات کی جب کوئی اور آپشن نہیں رہا تو تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ نہ کوئی ہماری سرزمین دوسروں کیلئے استعمال کرے گا اور نہ ہی دوسروں کی سرزمین ہمارے لئے استعمال ہوگی۔ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق ملٹری آپریشن کرکے امن بحال کیا گیا۔ بعد ازاں ان علاقوں کے مہاجرین کو واپس ان کے علاقوں میں آباد کیا گیا۔ پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف ہے اور ہم پاکستان کا چہرہ مجروح نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کیا کہ تمام سیاستدانوں کو لیول پلیئنگ فلیڈ ملنا چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بات کرنے والے 9 مئی کے ذمہ داروں کو الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ مفاہمت کی سیاست اور چیئرمین پارٹی بلاول بھٹو کے حالیہ بیانات پر کئے گئے سوال کے جواب میںسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سپریم ایگزیکٹو کمیٹی کے آخری اجلاس میں شرکاءنے تمام اختیارات آصف علی زرداری کو سونپ دئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے تمام تحفظات کے خاتمے کیلئے تمام اقدامات اور فیصلے وہ ہی کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...