نئی حلقہ بندیاں: اعتراضات کیلئے صرف ایک ڈیسک ناکافی

Oct 05, 2023

ندیم بسرا
بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کروانے پر زور نہ دینے کے باعث ائندہ عام انتخابات کا انعقاد ابھی تک یقینی بنتا دکھائی نہیں دیتا ،پہلے سیادی جماعتوں کی طرف سے 90یا 120دن میں الیکشن کرانے کا مطالبہ ہو رھا تھا تو اب حلقہ بندیوں اور الیکشن شیڈول کے حوالے سے چہ مگوئیاں پھیلی ہوئی ہیں۔بعض جماعتیں امن و امان،موسم اور معیشت کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار کے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں جس میں مسلم لیگ ن ،جے یو آئی ف ،ایم کیو ایم،اے این پی شامل ہیں۔مولانا فضل الرحمان تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ پہلے معیشت ٹھیک کی جائے پھر انتخابات کی جانب بڑھا جانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کی جانب سے الیکشن کروانے کا مشترکہ اعلان نہیں ہوجاتا اس وقت تک نگران حکومت اور الیکشن کمیشن میں ہلچل واقع نہیں ہوگی۔بہرحال پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ اب یہ بہانے نہیں چلیں گے ،الیکشن کمشن فوری طور پر الیکشن شیڈول دے ورنہ ہمارا مطالبہ تب تک جاری رہے گا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے 18اکتوبر(سانحہ کارساز) کے روز پاور شو کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے 56ویں یوم تاسیس پر مینار پاکستان پر جلسہ کرنے جا رہی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف بھی چار برس بعد پاکستان واپسی کا ٹکٹ کٹوا چکے ہیں تاہم انکی وطن واپس آمد اور گرفتاری یا عبوری ضمانت کے حوالے سے ن لیگ ابھی ماہرین قانون سے صلاح مشورے کر رھی ہے۔حال ہی میں ن لیگ کی طرف سے شاہدرہ میں کیے جانیوالے جلسے جو فلاپ قرار دیا گیا ہے جہاں کارکنان کی تعداد مایوس کن اور وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف ہاشمی کے حق میں نعرے بازی نے لاہور کو اپنا سیاسی قلعہ قرر دینے والی جماعت کو بے نقاب کر دیا ہے۔الیکشن کمشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کے اعلان کے بعد کمشن کی طرف سے صرف اسلام آباد میں سہولت مرکز اور اعتراضات ڈیسک کا قیام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کیلئے سوہان روح بن چکا ہے۔بہتر یہ ہو گا کہ چیف الیکشن کمشنر کے تحت یہ سہولت مراکز کم از کم صوبائی سطح پر قائم کر دئیے جائیں تاکہ امیدواران کی کوفت کچھ تو کم ہو سکے۔دوسری جانب وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی اور اسکی تنظیموں کی صورتحال اتنی بہتر نظر نہیں آتی جتنی کسی عام انتخابات کے پیش نظر ہونی چاہیے۔راجہ۔پرویز اشرف کے سپیکر قومی اسمبلی بننے کے بعد وسطی پنجاب تنظیم کے باقی ماندہ عہدیداروں میں اختیارات اور ذاتی پسندنا پسند کی جنگ نے صوبائی سطح سے تحصیل سطح تک پارٹی ڈسپلن اور تنظیموں کو نا قابل معافی نقصان پہنچایا ہے۔چیئرمئن بلاول بھٹو گزشتہ ماہ جب سندھ سے جنوبی پنجاب کے اہم شہر ملتان پہنچے تو چند سو کارکنوں کے استقبال نے جہاں ان پر اپنے میزبانوں اور پارٹی تنظیموں کی کارکردگی بے نقاب کی وہاں انہیں جنوبی اور وسطی پنجاب میں پارٹی کی اصل صورتحال سے بھی آ گاہی حاصل ہوئی۔یہی صورتحال پیپلز پارٹی سینٹرل۔پنجاب وویمن ونگ کی ہے جس کی صدر سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی ثمینہ گھرکی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وسطی پنجاب کے26اضلاع سے گنتی کی خواتین عہدیداروں نے شرکت کی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک پیپلز پارٹی لاہور کی جنرل سیکرٹری سونیا خان اور فیصل آباد سمیت دیگر اضلاع کی عہدیداروں نے پارٹی کی خواتین تنظیموں اور انکی عہدیداروں کے درمیان سرد جنگ کو ختم کر کے اہم عہدوں پر من پسند خواتین کی بجائے سرگرم ،وفادار اور با وسیلہ خواتین کو نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا مگر اس پر کوئی مثبت پیش رفت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔اس صورتحال میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے 18اکتوبر کو ملک بھر میں پاور شو کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور ملک بھر کی پارٹی تنظیموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس روز ہونیوالے جلسوں سے بلاول بھٹو زرداری ڈیجیٹل سکرینوں پر براہ راست خطاب کرینگے اور مستقبل کا لائن آف ایکشن واضح کرینگے۔

مزیدخبریں