میرا اسے جذبہ حب الوطنی کہہ لیں‘ خواہ مخواہ ”سینگ اڑانے“ کی عادت یا پھر اپنی غریب الوطنی کا امتحان کہ اپنی قومی ایئرلائن اور ”ریلوے گڈیوں“ کی زبوں حالی پر پچھلے 23 برس سے انہی کالموں میں جو قومی رونا رو رہا تھا‘ نگران حکومت کو بالآخر میرے اور میری طرح کے بیرون ملک مقیم ایک کروڑ محب وطن پاکستانیوں کے اس رونے پر ترس آ ہی گیا ہے۔
جی ہاں! ”ہم باکمال لوگوں“ کی گزشتہ 20 برس سے شرمناک حد تک بھاری خسارے سے دوچار بین الاقوامی اڑان بھرنے والی ”لاجواب سروس“ پی آئی اے کو حکومت نے اگلے روز اب پرائیویٹائزڈ کرنے کا عملی فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت کو یہ اقدام اٹھانا تو بہت پہلے چاہیے تھا‘ مگر پنجابی میں وہ کہتے ہیں نا کہ ”ڈلہے بیراں دا اجے وی کج نہیں وگڑیا“ پی آئی اے کو اب بھی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے مگر سب سے پہلے نجکاری کے اس عمل کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آزادی کے 76 برس گزرنے کے باوجود ہماری ماضی کی حکومتیں اپنے قومی اداروں کو وہ بنیادی پیرامیٹرز مہیا نہیں کر سکیں جو ملک و قوم کے معاشی استحکام کیلئے ناگزیر تھا۔ امریکہ‘ برطانیہ سمیت بیشتر مغربی ممالک میں نجکاری کے عمل کو کئی برس قبل متعارف کروایا جا چکا ہے۔ برطانیہ کی ہی اگر بات کریں تو ریلوے برطانوی ایئرپورٹس‘ لندن میں چلنے والی انڈر گراﺅنڈ ریلوے‘ گیس‘ بجلی‘ ٹیلی فون‘ ہیلتھ‘ اور پبلک ٹرانسپورٹ سمیت متعدد محکموں کی نجکاری کی جا چکی ہے جو توقع سے زیادہ منافع دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر بھی عام ہے کہ نجکاری کا مطلب متاثرہ محکموں یا اداروں کو بند کرنا ہے جو درست نہیں۔ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے ان کمپنیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو مضبوط مالی حیثیت رکھتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ ہوں۔ اب یہ سوال کہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ سادہ اور آسان ترین الفاظ اور حقائق کی روشنی میں اگر جواب دیا جائے تو وہ یوں ہے کہ 1970ءتک پی آئی اے کا شمار دنیا کی انتہائی قابل اعتماد‘ محفوظ‘ شہرت یافتہ اور معیاری فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ مہذب دنیا کے بیشتر مسافر اس ایئرلائن پر سفر کرنا اپنا اعزاز تصور کیا کرتے تھے مگر پھر: چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ہم باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو ایسی ”نظر“ لگی کہ آج تک خسارے سے باہر نہیں نکل پائی۔ 2022-23ءکے تازہ ترین خسارے کا اگر جائزہ لیا جائے تو پی آئی اے کا ماہانہ خسارہ تقریباً 12 ارب اور مجموعی خسارہ 740 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ حکومتی گارنٹی پر فضائی کمپنی نے مبینہ طور پر 260 ارب روپے کا قرض بھی لے رکھا ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں اب بھی پی آئی اے کے براہ راست اپریشن پر گزشتہ تین سال سے پابندی عائد ہے۔ ان حالات میں برطانوی پاکستانی وطن عزیز کیلئے پی آئی اے ٹرکش ایئرلائن Code Shearing کے تحت اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے ترجمان کے مطابق برطانیہ میں پی آئی اے فلائٹ اپریشن کی جلد ازجلد بحالی کا امکان ہے۔ تاہم میرے ذرائع کے مطابق برطانیہ میں اس بار خاتون کنٹری منیجر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے جبکہ لیجز سیلز منیجر‘ فنانس منیجر اور ایک اسٹیشن منیجر بھی تعینات کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ میں تعینات افسران کی تنخواہ تین کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یہ اقدام پی آئی اے فلائٹ اپریشن کی جلد بحالی کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے تاہم میری کوشش ہو گی کہ اس سلسلہ میں مزید معلومات اور تفصیلات برطانیہ میں تعینات ہونیوالی نئی کنٹری منیجر سے حاصل کی جا سکیں ۔ نجکاری کے اقدام سے اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہGreat people to fly کے ماٹو پر برطانوی مسافروں کا کھویا ہوا اعتماد پھر سے بحال ہو جائیگا۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ پی آئی اے کی سال 2023ءکے پہلے ہر ماہ کی مالی رپورٹ میں 6071 ارب روپے سے زائد نقصان کی مبینہ طور پر نشاندہی بھی سامنے آگئی ہے۔ اسے اب آپ حسن اتفاق کہہ لیں کہ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اقوام متحدہ اسمبلی کے اجلاس کے بعد چند روز کیلئے لندن کے دورے پر آئے۔ یہاں انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے برطانیہ کے بڑے سرمایہ کار گروپوں اور فنانشل مارکیٹ عہدیداران سے خصوصی ملاقاتیں کیں اور پی آئی اے پروازوں کی بحالی کیلئے وزیراعظم کی برطانوی سیکرٹری خارجہ James Clevery سے بھی خصوصی ملاقات ہوئی۔
دورہ کے اختتام پر نگران وزیراعظم مسٹر انوارالحق کاکڑ نے ہائی کمیشن لندن میں ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کے ہمراہ پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کے سوال و جواب سیشن میں واضح کیا کہ نگران حکومت کی وابستگی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں۔پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے میرے پوچھے اس سوال پر کہ پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا آئی ایم ایف کے دباﺅ پر کیا گیا؟ وزیراعظم نے کہا‘ نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف کا نہیں بلکہ یہ فیصلہ ہم نے اداروں کے بڑھتے خسارے کو دور کرنے کیلئے کیا ہے۔ ایسا نہ کرتے تو اداروں کو سبسڈی دینے سے ملک دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا۔ ہم خودمختار قوم ہیں‘ سب سے پہلے ہمیں اپنا مفاد عزیز ہے۔ اس لئے کسی بیرونی طاقت کو پاکستان کے اندر معاملات میں مداخلت کی قلعی اجازت نہیں دی جاسکتی۔