آشوب چشم سے بےنائی متاثر نہیں ہوتی، وبا میں بتدریج کمی آ رہی ہے، وزیر صحت

یہ تو خدا کا شکر ہے کہ آشوب چشم کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔ ورنہ لوگ تو بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے۔ اچھے بھلے ملنے ملانے والے، ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے گھبرا رہے تھے۔ وہ جن کی آنکھوں میں دیکھنے کی تمنا دلوں میں رہ رہ کر مچلتی تھی وہ بھی نظریں چرا کر گزرنے لگے تھے۔ آنکھوں میں ذرا سی لالی کیا آئی۔ لوگ کنی کترا کر گزرنے لگتے ہیں۔ اب چاہے وہ لالی حیا کی ہو یا شرم کی لوگ اسے آشوب چشم سمجھ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگتے ہیں کہ کہیں آنکھیں نہ ملانی پڑیں۔ یوں طالب ہو یا مطلوب سب ایک دوسرے سے جان چھڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ اب جہاں نظر ڈالیں ہر ایک خندہ رو روشن جبیں اپنی حسین آنکھوں کو کالے چشمے سے ڈھانپے ہوئے ہے۔ 
 بہرحال اب یہ وبا کنٹرول میں آ رہی ہے۔ اسی لیے وزیر صحت نے بھی کہا ہے کہ بےنائی متاثر نہیں ہوتی بس احتیاط اور چشمے کی ضرورت ہے۔ جلدہی جب یہ سیاہ چشمے اتریں گے تو پھر نگاہوں کی زبان میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگا اور ایک بار پھر
دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچائے
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
والا ماحول سامنے ہوگا۔ خدا یہ وقت جلد لائے۔ بہت ہو گئی احتیاط اب تو بنا چشمے کے دنیا کو دیکھنے کا جی چاہتا ہے۔
٭٭٭٭
خالصتان اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ ہے، امریکہ
اگر ایسی بات ہے تو پھر امریکی دوغلی پالیسی کا کیا کہنا۔ اگر خالصتان اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ ہے تو جناب والا کشمیر بھی اظہار رائے کی آزادی سے کہیں بڑھ کر حق رائے دہی کا معاملہ ہے۔ اس پر امریکہ ہی نہیں اقوام متحدہ کے تمام ممبران متفق تھے قراردادیں بھی منظور کر چکے ہیں۔ مگر 72 برس گزر گئے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ آج خالصتان کے حامی سکھوں کی طرف سے ذرا کیا احتجاج سامنے آیا۔ چند ایک سکھ لیڈر کیا قتل ہوئے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں ھل چل مچی ہوئی ہے۔ سب کو انسانی حقوق سے لے کر اظہار رائے کی آزادی یاد آگئی ہے۔ کشمیری بھی تو72 برسوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں خود اقوام متحدہ ان کی حق رائے دہی کی حمایت میںکافی کام کر چکا ہے۔ مگر عمل ندارد، اگر امریکہ اور یورپی ممالک دوغلی پالیسی ترک کر دیں اور کشمیریوں کے بارے میں بھی وہی انصاف پسند پالیسی اپنائیں تو کل کیا آج ہی بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مگر لگتا ہے کشمیریوں کا لہو اور دیگر اقوام کے لہو میں فرق ہے۔ کیونکہ کشمیری فلسطینیوں کی طرح مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا لہو اقوام عالم کی نظروں میں پانی سے بھی ازاں اور بے معنی ہے۔ بہرحال اب سکھوں کی بدولت جو یورپی اقوام میں بھارت کے حوالے سے آنکھوں پر بندھی پٹی کھل گئی ہے تو امید ہے۔ بھارت میں کشمیریوں، مسلمانوں اور مسیحی کمیونٹی کے ساتھ انتہا پسند ہندوتوا کے نام پر جاری مظالم کی راہ روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیا دنیا کو بھارت میں اقلیتوں پر جنونی ہندوﺅں کے مظالم نظر نہیں آتے کہ خاموش تماشہ دیکھتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
ڈی آئی خان میں چھاپہ، علی امین گنڈا کے گھر سے سیلاب متاثرین کے ٹینٹ برآمد
اس سے پہلے لوگوں کو یاد ہوگاکہ کوئٹہ میں ایک جلسہ جے یو آئی(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کیا تھا اس میں پانی کی وجہ سے گیلی جلسہ گاہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے دیئے گئے سیلاب متاثرین کے خیمے بڑی بے دردی سے زمین پر بچھائے گئے تھے۔ ان کے اوپر کرسیاں لگا کر مولانا کے لئے جلسے کا انتظام کیاگیا تھا۔ آج بھی سندھ، پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان کے ایم پی اے اور ایم ایز کے گھروں، مدرسوں اور ڈیروں میں سیلاب متاثرین کے لئے بھیجا گیا غیر ملکی امدادی سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔ سچ کہیں تو دھڑلے سے استعمال ہو رہا ہے۔ اب ان چھوٹی موٹی وارداتوں سے نہ ہمارے سیاستدان ڈرتے ہیں نہ مقامی انتظامیہ اب ڈی آئی خان میں علی امین گنڈا پور کے گھر پولیس نے جو چھاپہ مارا خدا جانے کس مقصد کے لئے ماراتھا وہاں سے تیل یا گیس کا کنواں تو نہیں نکلا البتہ سیلاب متاثرین کے لئے دیئے جانے والے درجنوں خیمے برآمد ہوئے بقول پولیس جب ان کے والد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا یعنی انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کا البتہ کہنا ہے کہ یہ ان کے ذاتی خریدے گئے ٹینٹ تھے۔ خدا جانے انہوں نے کیوں خریدے۔ وہ بھی عالمی امداد اور ملکی امداد میں ملنے والے ٹینٹ اگر خریدنا تھاتو عام ٹینٹ بازار سے جا کر خریدتے مگر شاید وہ اتنے اعلیٰ میٹریل والے نہیں ہوتے اس لئے انہوں نے یہ غیر ملکی ٹینٹ خریدے کہاں سے کس سے اور کیوں یہ ان کا معاملہ ہے اس پر رائے دینے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ خود انہوں نے بھی کہا ہے کہ یہ ٹینٹ والے معاملے کو ایشو کیوں بنایا جا رہا ہے....
٭٭٭٭٭
ورلڈکپ سٹیڈیم میں سیٹوں پر جمی گندگی نے آئی سی بی کی نااہلی کاپول کھول دیا
ویسے تو بھارت والوں کو بڑا شوق ہے دنیا میں خود کو بہتر منوانے کا۔ برتر تو وہ کسی صورت ہو نہیں ہاں بہت سے معاملات میں بدتر ضرور نظر آتے ہیں۔ آج کی بات نہیں ہمیشہ سے بھارت کوگندا ملک کہا جاتا ہے۔ جتنی گندگی بھارت کے کسی ایک بڑے شہر میں ہے اگر وہ سمیٹی جائے تو کئی چھوٹے ممالک کی مجموعی گندگی سے زیادہ ہوگی۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ، وارنسی جیسے بڑے بڑے شہروں کی حالت یہ ہے کہ وہاں کی سڑکیں گندگی سے اٹی ہو نظر آتی ہیں۔ چند ایک بڑی سڑکوں کو چھوڑ کر ہر جگہ گندگی بکھری نظر آتی ہے۔ ناصر کاظمی سے معذرت کے ساتھ
میرے شہری کی گلیوں میں ناصر
گندگی بال کھولے سو رہی ہے
والا منظر سامنے آتا ہے اب یہ جو کرکٹ کا عالمی مقابلہ بھارت میں ہو رہا ہے۔ جس کاعرصے سے بھارت والے بڑا اہتمام کر رہے ہیں اس تمام تر کاغذی کارروائیوں کے باوجود دیکھ لیں میڈیا نے بھارت کا اصلی گندا چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان وارم اپ میچ حیدر آباد دکن کے جس بڑے سٹیڈیم میں ہوا وہاں کی حالت یہ ہے کہ وہاں کی کرسیاں اس قدرگندی اور خراب ہیں کہ تماشائی اس پر بیٹھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ مگر بھارت والے اپنے اعلیٰ انتظامات کا یوں شور مچا رہے ہیں کہ ایسے انتظامات کوئی اور نہیں کر سکتا یہ عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ واقعی اتنے ناقص اورگندے انتظامات کوئی اور کرتا تو بھارت نے اس کی جان کھانی تھی کہ ناقص انتظامات تھے۔ اب معلوم نہیں خود اپنے اتنے ناقص اور غیر معیاری انتظامات پر بھارت والے کیا کہیں گے.... تصاویر سب نے دیکھی ہیں اس سے اب وہ کیسے انکار کریں گے....
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن