جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک انگریزی جریدے کو غیر روایتی انٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ان پر تنقید سے گریز کریں۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ان سویلینز کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فوج اپنے سابق سربراہ پر تنقید برداشت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر مقدمہ چلانا ویسی ہی غلط ہو گی جیسی غلطی انہوں نے پرویز مشرف پر مقدمہ کر کے کی تھی اور خمیازہ بھگتا۔ اب بھی یہی ہو گا۔
بظاہر ان کو موخرالذکر دھمکی غیر ضروری ہے۔ نواز شریف نے چند ہفتے قبل ایک گفتگو کی تھی جس میں انہوں نے پراجیکٹ عمران کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ ان ذمہ داروں کو گنتے ہوئے انہوں نے جنرل باجوہ، فیض ، ثاقب نثار وغیرہان کل چھ افراد کے نام لئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ بوجوہ خاموش ہو گئے۔ اب اگر انہیں خاموش ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں تو جنرل باجوہ نے خاموشی کیوں توڑ دی؟۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نواز شریف بھی غیر اعلانیہ ٹروس TRUCE توڑ دیں اور پھر سے غزل سرا ہو جائیں۔
_______
مشرف پر نواز شریف نے مقدمہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے حکم پر چلایا تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے۔ لیکن انہیں تو کچھ بھی نہ ہوا، وہ عزت ، وقار، مراعات، پنشن، پروٹوکول سمیت ریٹائرڈ ہو گئے۔ جو ہوا، صرف نواز شریف کے خلاف ہوا۔ باجوہ صاحب اس سوال کا جواب بھی دے دیں!
نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ڈان لیکس ہوا، پنامہ لیکس ہوا، اقامہ اپنے معنوں سمیت بلیک لا ڈکشنری سے برآمد ہوا، انہیں عمر بھر کی نااہلی ملی اور قید کی دو دو سزائیں، جیل میں ان کو زہر دیا گیا، پھر انہیں ملک سے باہر بھجوا دیا گیا۔ یہ سب ہوا، اس کے علاوہ بھی کچھ ہوا۔ ضمیمہ جات اور حاشیہ جات ضمن میں ان کی پارٹی والوں سے بھی بہت کچھ ہوا۔ اس سب کے باوجود 2018ءکا الیکشن شام گئے تک مسلم لیگ ہی جیت رہی تھی۔ شام گئے کے بعد ایک مجلس بوکھلاہٹ کی برپا ہوئی اور آخری چارہ کار کے طور پر دونوں ”بڑوں“ نے آرٹی ”سسٹم بٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ادھر آر ٹی سسٹم بیٹھا، ادھر باقی ماندہ انتخابی نتائج پے درپے پی ٹی آئی کے حق میں برآمد ہونے لگے۔ یہ ہوا اور اس کے بعد مزید بھی کچھ ہوا۔ ساری بلڈوزری کے باوجود پنجاب مسلم لیگ نے جیت لیا جس کے بعد ایک جہاز حرکت میں آیا، قومی استحکام کے نام پر اڑان بھرنے والے اس جہاز کی اڑان نے پنجاب مسلم لیگ سے چھین کر پی ٹی آئی کے سپرد کر دیا۔ عمران خان شانت، باجوہ صاحب پر شانت اور فیض صاحب وشانت ہو گئے۔ راوی نے ہر طرف شانتی ہی شانتی لکھ دی۔
_______
یہ جو ہوا سب نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ بعد میں جس جج نے مشرف کیخلاف فیصلہ سنایا، اس کی عدالت کو کالعدم قرار د ے دیا گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد فیصلہ دینے والے جج صاحب بھی ”اچانک“ وفات پا گئے۔ اس ”اچانک“ کے معنے آج تک دریافت نہیں ہو سکے حالانکہ معنے برآمد کرنے والوں کی طاقت تو اتنی زیادہ ہے کہ جس نام کی ڈکشنری دنیا میں کہیں چھپی نہ لکھی گئی نہ موجود تھی نہ موجود ہے، اسے بھی برآمد کر کے ”بلیک لا“ کا نام بھی دے ڈالتے ہیں اور اس میں سے مطلب کی ڈیفی نیشن بھی نکال ....لاتے ہیں۔
_______
باجوہ صاحب کے الفاظ پر ایمان لائیں تو اس بار بھی وہی سب کچھ ہو گا جو تب ہوا تھا۔
بجا....البتہ اس دوران بہت سے چہرے اپنی جگہ نہیں رہے جو اپنی اپنی جگہ پر جگمگ جگمگ کر رہے تھے۔ مثلاً راحیل شریف مدظلہ العالی، قمر باجوہ زیدة العالوی ، نیز آن۔ رے۔ بل ثاقب نثار اور پھر مابعد کے ثاقب نثاران مسمی کھوسہ، عظمت، گلزار اور پھر آخر میں پیکر کمال بندیال اور ان سب کے بیچ وہ چشمہ فیض جو پہلے سر کوہسار سے گرتا تھا ، آج کل سرسوتی ندی کی طرف زیر زمین مصروف قلقل ہے۔ اب یہ سب چہرے کہاں ہیں، باجوہ صاحب سمیت؟۔ یہ سب وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی کوئی اپنی خبر نہیں آتی۔
_______
رہی تنقید برداشت کرنے کی بات تو ہم آپ کہاں کے ھماشما ہیں کہ اختلاف و تردید کی جرات کر سکیں لیکن اس نابکار ریکارڈ کا کیا کیجئے گا جو مان کر دے رہا ہے نہ مان کر دے گا۔
ضیائ الحق پر تب بھی تنقید ہوئی جب وہ ، اپنے آخری زمانے میں بدستور چیف تھے اور سخت تنقید ہوئی۔ اور جب وہ ایک حادثے میں ہم آغوش اجل ہوئے تب تو اور بھی سخت تنقید ہوئی۔ آج کل ان کا مزار مقام ناپرساں ہے۔ نے چراغ ، نے گ±لے ، نے پر پروانہ، نے صدائے بلبلے، سدا بہار خزاں کا عالم چھایا رہتا ہے۔
_______
ان کے بعد، جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت ملنے کے باوجود ہدف تنقید بننا پڑا۔ آج تک بنے جا رہے ہیں۔ پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کے بعد پہلے سے زیادہ تنقید کی زد میں آئے۔ حرفِ ملامت کے جھکڑ طوفانی بگولے بن گئے۔ راحیل شریف بھی تنقید سے نہ بچ سکے اور قبلہ ، آپ کے با ب میں تو ضیا اور مشرف کے ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے۔
آپ نے سب سہا۔ اپنے ”لے پالک“ کے بھی تیر کھائے اور اب یکایک کیا ہوا کہ ادارے کی چھتری سر پر تان کر ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ کا استدلال بہت بھاری بھرکم ہے لیکن جس ریکارڈ کو آپ نے بنیاد بنایا ہے، وہ تو اور ہی کہانی بتاتا ہے جو اوپر لکھ دی۔ اب یوں آنکھیں دکھائیے مت صاحب!
_______
مریم نواز نے شاہدرہ میں نواز شریف کی آمد پر استقبال کی تیاریوں کے سلسلے میں جلسہ کیا جس میں ہزاروں نہیں، سینکڑوں افراد نے شرکت کی....کس لئے؟۔ اس لئے کہ جلسہ ایک تنگ گلی میں کیا گیا تھا یعنی اس بات کو ”فول پروف‘ بنایا گیا تھا کہ سینکڑوں ہی آئیں، اس سے زیادہ آ ہی نہ سکیں۔
اب یہ بات کون سا ”انوسٹی گیٹو“ رپورٹر لکھے گا کہ کس نے آخری وقت پر گلی کو جلسہ گاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آخری وقت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے وقت جب مریم کو اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ جلسہ گاہ آ کر تقریر کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔ کس نے کارکنوں سے کہا آنے کی ضرورت نہیں۔
اب کمان شہباز شریف نے خود سنبھال لی ہے۔ مریم نے اس سینکڑوں نفری کے جلسے میں نواز دور کے ”گڈ اولڈ ڈیئر“ کو یاد کیا۔ شہباز کے سترہ ماہی دور کی طرف اشارہ بھی نہ کیا۔ کرتیں تو یہ سینکڑوں اٹھ کر چلے جانے کا خدشہ تھا۔
اب شہباز شریف نے خود کمان سنبھال لی ہے تو نواز شریف کے استقبال کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
پہلے کوشش ہوئی، نواز شریف واپسی کا ارادہ ، بدل دیں۔ اب بندوبست کیا جا رہا ہے کہ نواز خطاب کے لیے جلسہ گاہ پہنچیں تو بھائیں بھائیں کرتا مینار پاکستان ملے۔ لوگ کیسے ہیں، مریم نواز کو مسلم لیگ ن میں، جو ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب ہے، تنہا کر دیا گیا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے خود نواز شریف کو ہی اپنی ہی جماعت میں ”اجنبی“ بنانے کی تیاری ہے۔