جارحیت' بربریت اورنسل کشی کا ایک برس


 عباس نامہ …عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com

یکم اکتوبر کو ایران کی طرف سے اسرائیل پر باضابطہ حملے کی تباہی کی اطلاعات بتدریج آرہی ہیں۔ پاسدارن ایران میزائل حملوں کو اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا جواب گردان رہے ہیں۔ اسرائیل پر حملے کو جس طرح عرب دنیا اور عالم اسلام میں سلیبریٹ گیا اس خوشی اور اظہار واطمینان سے مسلم حکمرانوں اور مسلمان عالم کے موقف میں فرق نمایاں ہے۔ بی بی سی نے ٹھیک لکھا کہ مسلم قیادت جنگ بندی کی فکر میں ہے جب کہ مسلمان قوم ایرانی جواب کو جشن کی صورت میں لے رہے ہیں۔ یقیناً مسلم لیڈر شپ مصلحت کا شکار ہے جس کا ثبوت بیانات' جوشیلے خطابات اور قراردادیں ہیں۔ مسلمان ممالک کے اراکین پارلیمان قراردادیں منظور کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوںنے فلسطین سے یکجہتی کا فرض پورا کردیا۔ حقیقت اس کے برعکس سمجھی اور دیکھی جارہی ہے۔ دو ارب مسلمان کسی بڑی طاقت کی بالادستی قبول کرتے ہیں نہ وہ اجتماعیت اور اجتماعی مفادات کے لیے کسی ''سپرپاور'' کے آگے سرنگوں ہیں۔ 31 جولائی کو حماس لیڈر اسماعیل ہانیہ اور 28 ستمبر 2024  کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل مظالم ' ہٹ دھرمی اور جارحیت جس راہ چل پڑی تھی اسے جواب دیا جانا ضروری تھا۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے دو روز بعد ظالم اور جابر نتین یاہو حکومت نے لبنان' غزا اور شام سمیت پانچ اسلامی ممالک کو بیک وقت نشانہ بنایا۔ مسلمان لیڈر شپ جواب دینے کی بجائے جنگ بندی اور امن مذاکرات کی باتیں کرتی نظر آئی۔ کیا ایسے حالات اور معمولات میں مسلم موقف اور ان کے اجتماعی مفاد کا تحفظ ہوسکتا ہے، حضرت اقبال یاد آگئے
بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
57اسلامی ممالک کے 2 ارب مسلمانوں کا چیلنج امریکہ اور اسرائیل نہیں ' ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عدم اتحاد ہے۔ آپس کے اختلافات اور ناچاقی نے امت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ مسلم قیادت کی نااتفاقی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی ہے کہ اکتوبر 2023ے جاری جارحیت اسرائیلی جارحیت اکتوبر 2024 میں سال مکمل کرگئی۔ مہذب دنیا اور مہذب معاشروں کی اٰنکھ کھلی نہ انہیں ہوش آیا۔ ایک سالہ یکطرفہ جنگ کے باوجود اہل فلسطین کے حوصلہ ھمالیہ سے بلند ہیں۔ 42 ہزار شہادتوں اور پورے غزا کو قبرستان میں تبدیلی دیکھ کریں فلسطینی مسلمانوں کا حوصلہ پست نہیں ہوا آج بھی ان کا ایک ہی نعرہ ہے ''فلسطین کل بھی ہمارا ہے اور آج بھی ہم فلسطین کے وارث ہیں''اسرائیل کے بارے میں گرم گوشہ رکھنے والوں کو حقیقت کی دنیا میں آجانا چاہیے دوسروں کے حقوق کا تحفظ اور اپنے موقف سے انحراف کیا دور گزر گیا۔ مسلمان ممالک نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر خطرہ حادثے کی نئی شکل کے ساتھ سامنے آجائے گا۔ عرب لیگ' او آئی سی اور 57 مسلم ممالک کی اسلامی فوج کو ایک موقف اور ایک ردعمل کی پوزیشن پر آنا پڑے گا۔ ایسا نہ رہا تو پھر اسرائیل کے مظالم' جارحیت اور میزائل حملوں کی صورت میں سر سے بلند ہوتا پانی سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق شو شا کچھ عرصے بعد منظم انداز سے چھوڑا جاتا ہے حالانہ پاکستان کا اسرائیل پر موقف واضع اور جاندار ہے جس کی بنیاد بانی پاکستان کے فرمودات ہیں۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور 1947ئے بعد کئی بار اس موقف کا اعادہ کیا کہ ''اسرائیل ناجائز ریاست ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہیے'' فلسطین کی سرزمین پر حق اہل فلسطین کا ہے پاکستان کبھی اور کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ مقام شکر ہے کہ سپہ سالار جنر ل عاصم منیر اپنی ہرتقریر اور ہر میٹنگ میں کشمیر کے ساتھ فلسطین کا ذکر بھرپور انداز سے کرتے ہیں۔ پاک فوج' حکومت اور قوم فلسطین کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تاریخی موقف کو جس انداز سے پیش کیا عالمی سطح پر اس کی ستائش ابھی تک محدود ہے…1099میں پوپ اربن دوم کی قیادت میں عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے ذریعے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا, یوں تقریباً 88سال تک یہ ارض مقدس ان کے زیرِ تسلط رہی۔ 1187 میں مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور یوں یہاں تقریباً سات سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔سرزمین فلسطین میں یہود ونصاریٰ نے گریٹر اسرائیل کے صہیونی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہاں یہودی آباد کاری کا سلسلہ نہایت ہی تیزی سے جاری و ساری رکھا۔1170میں بیت المقدس میں صرف ایک یہودی تھا1175 میں ان کی تعداد بڑھ کر 150ہو گئی۔1918 میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 55000 ہو گئی1922 میں یہ تعداد بڑھ کر 82000ہو گئی۔1925 میں مزید 61000 یہودی مختلف ممالک سے یہاں لا کر بسائے گئے۔ 1936 میں بیرون ممالک سے آ کر یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ابتدائ میں یہودیوں نے جرمن حکومت سے معاملہ کرنا چاہا تھا کیونکہ اس وقت جرمنی میں یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا اس وقت امریکہ میں ہے۔ڈاکٹر وائز مین یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ برطانوی پالیسی کی دستاویزات کی جلد سوم میں لارڈ بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ موجود ہیں:''ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجود باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، صہیونیت ہمارے لئے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین پر اس وقت آباد ہیں۔برطانیہ اور فرانس نے یہودی منصوبہ میں ایسا کام کیا جیسا کہ وہ آزاد ملک نہیں ہیں بلکہ صرف یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم ش?ماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب 660641، عیسائی 71464 اور یہودی 82790 تھے ، فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سریربرٹ سیمیویل یہودی تھا۔جنگ عظیم دوم کے زمانہ میں معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا ، ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی بہت زیادہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری میں اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی ممالک نے سہولت کاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہیں مالی مدد فراہم کی۔ بھاری رقوم کا لالچ دے کر فلسطینی مسلمانوں سے ان کی زمینیں خریدیں۔ 
1947 میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا ?۔ اس قرارداد کے حق میں 33ووٹ اور اس کے خلاف 13ووٹ تھے، دس ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، امریکہ نے دباو¿ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائیبریا سے تین ووٹ زبردستی حاصل کئے۔ فلسطین کی تقسیم کی جو تجویز زبردستی منظور کرائی گئی اس کی رو سے فلسطین کا 55فیصد رقبہ 33فیصد یہودیوں اور 45فیصد رقبہ 67فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔جون 1967 کی جنگ کے بعد جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا ، اس وقت اسرائیل کے وزیر اعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ اگر اقوام متحدہ کے 122 اراکین میں سے 121بھی فیصلہ دے دیں تو تنہا اسرائیل کے حق میں اس کا صرف اپنا ہی ووٹ رہ جائے تو پھر بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے۔ فلسطین میں یہودیوں نے اپنے قدم جمانے کے بعد نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ مقامات مقدسہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا۔ اس میں بلاوجہ اور غیر ضروری توڑ پھوڑ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔ 21/اگست 1969 میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگادی۔ مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ شہید ہوا۔ حضرت سلطان نور الدین زنگی کا تیار کروایا ہوا تاریخی منبر بھی اسی میں نذر آتش ہوا تھا۔اسرائیل کی پارلیمنٹ پر نمایاں لکھا ہوا ہے:اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔" یہودی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں جو تفصیل دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر مزید قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر،پورا ،اردن،شام ، لبنان ، عراق کا بڑا حصہ،ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک سرزمین حجاز کا بالائی علاقہ شامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن