مقبوضہ کشمیر میں انتخابی عمل۔خدشات و امکانات 

اصغر علی شاد
امر اجالا
غیر جانبدار مبصرین نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابی ڈرامے کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ مذکورہ انتخابات میں بین الاقوامی میڈیا کو یہ اجازت نہیں دی گئی تھی کہ اس انتخابی عمل کا کوئی مشاہدہ کر سکیں۔صرف اسی ایک امر سے غالبا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نام نہاد انتخابات کسی حد تک شفاف ہوئے ہونگے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے غیر قانونی بھارتی قبضے والے کشمیر میں ریاستی مقننہ کو معطل کرنے اور مسلم اکثریتی علاقے کو ہندوستان کی براہ راست حکمرانی کے تحت لانے کے پانچ سال بعد جموں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔مبصرین کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہندوستانی حکومت کی جانب سے خطے میں اپنے منتخب کردہ ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات میں توسیع کے فوراً بعد کیا گیا تھا۔اس معاملے کی تفصیل سے پہلے بھارتی غیر قانونی قبضے کشمیر کے محل و قوع کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی کل آبادی تقریباً 15 ملین ہے جس میں کشمیر کی آبادی 8.9 ملین ہے اور جموں کی آبادی 6.1 ملین ہے۔ کشمیر ڈویڑن میں مسلم آبادی کا تناسب (96.41%)، ہندو (2.45%) اور سکھ آبادی کا تناسب (0.81%)ہے جبکہ جموں ڈویڑن مسلمان (30%)ہندو آبادی (66%)کا تناسب ہے۔ یاد رہے کہ مسلم اکثریتی اضلاع میں راجوری (63%)، پونچھ (90%)، ڈوڈا (54%)، کشتواڑ (58%) اور رامبن میں (71%) مسلمان آباد ہیں جبکہ دو سری جانب جموں ریجنل کے ہندو اکثریتی اضلاع میں کٹھوعہ (88%)، سامبا (86%)، جموں (84%) اور ادھم پور میں (88%)ہندو آباد ہیں۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ کل 8.8 ملین ووٹرز ہیں جن میں وادی کشمیر میں رجسٹر ڈ ووٹرز کی تعداد 4,626,810جبکہ جموں میں 4,176,210ووٹرز ہیں۔یاد رہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی 90 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں 74 عام نشستیں، 7 درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے اور 9 درج فہرست قبائل (ST) کے لیے مخصوص ہیں۔علاوہ ازیں تمام 7 ایس سی سیٹیں جموں میں ہیں جبکہ 9 ایس ٹی سیٹوں میں سے 6 جموں میں ہیں۔مبصرین کے مطابق IIOJK میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات تین مرحلوں میں یعنی 18 ستمبر، 25 ستمبر اور 1 اکتوبر کو ہوئے جبکہ ووٹوں کی گنتی 8 اکتوبر کو ہوگی اوراس ضمن میں 7 اضلاع میں پولنگ ہوئی۔تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ پہلے مرحلے میں 24سیٹوں پر 219امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 2.3ملین تھی۔مجموعی طور پر 3,276 پولنگ اسٹیشنز پر 14,000 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آو¿ٹ 61% رہا۔اسی تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوسرے مرحلے میں 6 اضلاع میں پولنگ ہوئی۔ جس میں 26سیٹوں پر 239امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 2.5 ملین تھی۔مجموعی طور پر 1,200 پولنگ سٹیشنوں پر1,700 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آو¿ٹ 57.03% رہا۔تیسرے مرحلے میں 7اضلاع میں پولنگ کا قیام عمل میں آیا۔جس میں 40سیٹوں پر 415امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 3.9 ملین تھی۔مجموعی طور پر 3,728پولنگ سٹیشنوں پر13,000 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آو¿ٹ 69.65% رہا۔مبصرین کے بقول اس ضمن میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے علاوہ ازیں مسئلہ کشمیر کا واحد قابل قبول حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے ہے، جو UNSC کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ انتخابات IIOJK میں معمول اور قانونی حیثیت کا غلط احساس پیدا کرنے کے لیے مصنوعی اور نمائشی ہیں۔یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ جموں میں آبادیاتی تبدیلیاں شروع کی گئی ہیں (آباد کاروں / ڈومیسائل کے اجرائ کے ذریعے) وادی کی مسلم اکثریت کو کم ا کرنے کے لیے اور اس سلسلے میں 3.2 ملین ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر رہائشیوں کو جاری کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ انتخابی حد بندیوں کرتے ہوئے جس طور جموں میں 6سیٹوں کا اضافہ کیا گیا اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ دہلی سرکار ہر قیمت پر وادی کشمیر کی آبادی میں ہندو ووٹرز کی تعداد زیادہ ظاہر کرنا چاہتی تھی اور وہ اس ضمن میں کامیاب بھی ہوئی۔ان تمام بددیانتوں کے باوجود سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ مذکورہ انتخابات میں عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگرس پر مبنی انتخابی اتحاد کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بی جے پی کیلئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوگا

ای پیپر دی نیشن