پس آئینہ
خالدہ نازش
عیش و عشرت سے بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود ، سکون کی دولت سے محروم بادشاہ ہمیشہ درویشوں ، فقیروں ، پرہیزگاروں کے آستانوں اور خانقاہوں کے محتاج رہے ہیں - ناانصاف اور ظالم بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے ایک درویش سے پوچھا عبادتوں میں سب سے اعلیٰ عبادت کون سی ہے ؟ درویش نے کہا تیرے لیے دوپہر کا سونا اچھا ہے ، تاکہ اس ایک لمحے مخلوق خدا سکھ کا سانس لے سکے - بادشاہ کے لئے یہ جواب جو ایک طرح کا مشورہ بھی تھا ضرور حیران کن اور غیر متوقع ہوا ہو گا - مگر اس میں بہت بڑا سبق تھا - میری ایک دوست کے ابا جان کئی دنوں سے اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھے - کسی بڑی پریشانی سے گزر رہے تھے - پریشانی کیا تھی ؟ کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتے تھے - ایک حکیم صاحب جو ان کے فیملی معالج اور دوست بھی ہیں ، جن پر وہ بڑے بڑے ڈاکٹروں سے زیادہ یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں - فیملی میں کسی کی بھی طبیعت خراب ہو ، کوئی چھوٹا بڑا مرض ہو انہیں حکیم صاحب کی خدمات حاصل کرتے ہیں - وہ میڈیکل سائنس پڑھ کر بننے والے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں جو مختلف امراض میں سپیشلائز بھی کر لیتے ہیں کے سخت خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈاکٹر ایک مرض کے علاج کے ساتھ کئی اور مرض لگا دیتے ہیں - موٹی موٹی ڈھیروں گولیاں کیپسول دے دیتے ہیں جن کو دیکھ کر ہی سر چکرانے لگتا ہے - وہ ان ادویات کو انگریزی دوائیں کہتے ہیں ، جبکہ ان کے حکیم معالج دیسی دوائیں دیتے ہیں ، جن سے اگر آرام نہ بھی آئے تو صحت پر ان کا برا اثر نہیں ہوتا - ان کی ان تمام باتوں میں کسی حد تک صداقت بھی ہے - یہ سچ ہے کہ یونانی طب یا حکمت ایک زمانے میں اپنے عروج پر تھی اس کے ماہرین اسے قدیم ترین طریقہ علاج کہتے ہیں ، اور اس کے موجد کے طور پر بقراط کا نام لیتے ہیں ، جنہوں نے کہا تھا کہ قدرت ہی سب سے بڑا معالج ہے، لیکن جدید طریقہ علاج ایلوپیتھی کے ماننے والے یونانی طب سے انکار کرتے ہیں اور کئی جگہ تو اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ، مگر یونانی طب سے منسلک افراد کا سوال ہے کہ ایلوپیتھ سے قبل یہی طریقہ علاج رائج تھا - یونانی حکمت اور طریقہ علاج کی طرف آج بھی لوگ تمام تر علاج کرانے کے بعد آخری چارہ کار کے طور پر آتے ہیں - آج جہاں دنیا میں بیماریوں کی اقسام بڑھ رہی ہیں لوگ تیزی سے food organic اور medicine Herbal کی طرف بھی آ رہے ہیں ، مگر اس طریقہ علاج کے نہ ماننے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے - میری دوست کے ابا کے حکیم اپنے علاقے میں بہت مشہور ہیں - ان کی وجہ شہرت ان کا طریقہ علاج نہیں ، طریقہ علاج ان کا بھی تمام حکیم حضرات جیسا ہے مریض سے اس کی ہیلتھ ہسٹری پوچھتے ہیں ، پھر کسی نتیجے پر پہنچ کر مرض کی تشخیص کرتے ہیں - مریض ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ، حکیم صاحب کے پاس زیادہ تر ہاں میں ہاں ملانے والے مریض ہی آتے ہیں - سب مریضوں کو پیسی ہوئی دوائی کی ایک طرح کی ہی پڑیاں دیتے ہیں ، جو ان کے ساتھ والے ایک چھوٹے سے کمرے میں ان کا کمپونڈر تیار کر رہا ہوتا ہے - ان کے سب مریضوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاتھ میں بہت شفا ہے - وہ ہر مریض کو ایک شرط پر دوائی دیتے ہیں ، وہ شرط یقین ہے - وہ ہر مریض کو تاکید کرتے ہیں کہ پورے یقین کے ساتھ دوائی کھانی ہے ، اگر یقین کے ساتھ نہیں کھاو¿ گے تو آرام نہیں آئے گا بار بار ان فقرات کو دہراتے رہتے ہیں ، جیسے انہیں خود اپنی دوائی سے زیادہ یقین پر بھروسہ ہو اور اگر کوئی مریض آرام نہ آنے کی شکایت کرے تو حکیم صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ضرور تم نے یقین کے ساتھ دوائی نہیں کھائی ہو گی - یوں تو وہ ہر مرض کے سپیشلسٹ ہیں ، کوئی مرض ایسا نہیں جس کا وہ علاج نہ کرتے ہوں مگر یقین پر انہوں نے خاص پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی ہے - مریض کے تندرست ہونے کا انحصار ان کی دوائی پر کم یقین پر زیادہ ہوتا ہے، مریض بھی ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ دوائی کھاتے ہیں اور ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں - میری دوست کے ابا کو پریشانی ختم کرنے کا کوئی نسخہ بھی اپنے انہیں حکیم معالج سے چاہیے تھا ، حالانکہ اگر وہ یہ مسئلہ اپنے کسی ہمدرد سے شیئر کر لیتے تو وہ انہیں کوئی اچھا مشورہ دے سکتا تھا ، مگر نہیں انہیں حکیم صاحب پر پورا یقین تھا ، حکیم صاحب نے بھی درویش کی طرف سے بادشاہ کو دیے جانے والے مشورے کی طرح زیادہ سے زیادہ سونے کا مشورہ دے دیا اور یقین پر زور دیا کہ پورے یقین کے ساتھ سونا انشاللہ پریشانی دور ہو جائے گی ، اور ساتھ دوائی کی کچھ پڑیاں بھی دے دیں مگر میری دوست کے ابا کو اس بات نے اور پریشان کر دیا کہ سوئیں گے کیسے پریشانی کی وجہ سے تو نیند ہی نہیں آتی - یہاں ان کا یقین تھوڑا ڈگمگاتا ہوا نظر آیا مگر پھر بھی میری دوست نے انہیں تسلی دی کہ آپ حکیم صاحب کی بات پر عمل کرنے کی کوشش تو کریں ہو سکتا ہے آپ کو نیند آ جائے اور اگر ساتھ یقین بھی شامل کر لیا تو پریشانی دور ہو سکتی ہے - میں اگر اپنی بات کروں تو مجھے حکیم حضرات کے طریقہ علاج پر صرف ایک وجہ سے تشویش ہے کہ وہ کسی ٹیسٹ کے بغیر علاج شروع کر دیتے ہیں ، جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو مرض کا کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ ٹیسٹ رپورٹس ہی بتاتی ہیں کہ مریض کو کون سا مرض ہے - ان سب باتوں کے باوجود حکیم صاحب کی یقین والی شرط میں کافی وزن ہے - اگر اس شرط کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ جب تک انسان کا اپنا یقین پختہ نہ ہو وہ دوسروں کو پختہ یقین کی تاکید نہیں کر سکتا ، شاید اسی وجہ سے ان کے مریض کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں شفا ہے - اگر سوچا جائے تو کائنات کا سارا نظام ہی یقین کے گرد گھومتا ہے - پیدائش سے لیکر موت تک ہم یقین کی انگلی تھامے زندگی کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں - ہماری تمام عبادات ، دعائیں ، التجائیں ، صدقات یقین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں - یہ یقین ہی ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہماری عبادات ہماری مناجات کہیں پہنچ رہی ہیں - یقین ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے ، بلکہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کے مذہب کی تصدیق یقین کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ، یہ یقین ہی ہے جو اسے کسی مذہب کا پیروکار بنا دیتا ہے - ہر انسان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ ناممکن ضرور ہوتا ہے ، جسے ممکن بنانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے - حکیم صاحب کی شرط پر عمل کرتے ہوئے اس ناممکن کے ساتھ اگر کسی نیک شرط کو جوڑ دیا جائے جس کا تعلق ممکن کے ساتھ چاہے براہ راست نہ ہو مگر وہ پس پردہ ناممکن کو کمزور کر رہی ہو - یہ شرائط دراصل اللّہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں ، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام عبادات کے ساتھ شرائط جڑی ہوئی ہیں - اللّہ تعالیٰ کے نزدیک کرنے کی شرط ، مشکلوں سے نکالنے کی شرط ، گناہوں سے معافی اور توبہ کی شرط - مجھے بھی ان حکیم صاحب کے دوا خانے میں جانے کا ایک بار اتفاق ہوا - ان کے دوا خانے پر لکھا ہوا ہے خدمت کے پچیس سال ، یہ میں نے کئی پرائیویٹ ہسپتالوں کے باہر بھی لکھا ہوا پڑھا ہے خدمت کے بیس سال، پچیس سال جن ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی فیس پچیس سو تین ہزار سے کم نہیں ہے اور ان ہسپتالوں کے اندر میڈیکل سٹور سے مہنگی قیمت پر دوائیاں ملتی ہیں جو خدمت کر نہیں رہے بلکہ مریضوں سے خدمت کروا رہے ہیں ، یوں تو اللّہ تعالیٰ کے بعد ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے اور یہ خدمت کا سب سے بڑا شعبہ ہے مگر اسے کمائی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے خیر ، حکیم صاحب کی خدمت اور ان ڈاکٹروں کی خدمت میں مجھے بہت فرق نظر آیا ، حکیم صاحب کوئی بھاری فیس یا دوائیوں کی بھاری قیمت وصول نہیں کرتے اور ساتھ ہی انہوں نے یقین پر لوگوں کا عقیدہ پختہ کر دیا ہے - اگر ہم بھی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کا تعلق دوسروں کی ذات سے ہے تو ہم بھی اس کام کو کسی نہ کسی شرط کے ساتھ جوڑ کر لوگوں کی ڈبل خدمت کر سکتے ہیں ، جس کا براہِ راست فائدہ دوسروں کو پہنچ رہا ہو وہ چاہے کسی میں کوئی امید ہی پیدا کرنا کیوں نہ ہو۔