معاہدہ تاشقند: ایوب، شاستری اور جہانگیر بھابھا

بھارت کو جنوری 1966ءمیں چند دن کے وقفے سےدو بڑے جھٹکے لگے۔ایک تو اسکے ایٹمی سائنسدان ہومی جہانگیر بھابھا جو ایٹم بم کی تیاری کے قریب تھے فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور دوسرا جھٹکا وزیراعظم شاستری کی موت ہے۔بھارت کو ان دو جھٹکوں سے بھی بڑا بلکہ بہت بڑا جھٹکا ستمبر 1965ءکی جنگ میں لگا جب پاکستان نے اسے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ جنگ کے چند ماہ بعد روس کی دعوت پر پاکستانی صدر اور بھارتی وزیراعظم تاشقند گئے۔جہاں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ کہا جاتا ہے، بھارت میدان میں ہاری ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر جیت گیا۔شاستری سے یہ خوشی برداشت نہ ہوئی اور وہ شادی مرگ سے جہان فانی کو چھوڑ گئے۔معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان بھی زیادہ دیر اقتدار میں نہ رہ سکے۔گویا معاہدہ تاشقند شاستری کی جان لے گیا اور ایوب خان کے اقتدار کوڈبو گیا۔ معاہدے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ہومی جہانگیر بھابھا کی بات کرتے ہیں جو ایئر انڈیا کی فلائٹ 101 میں تمام 117 سواروں سمیت چوبیس جنوری کوہلاک ہو گئے تھے۔یہ جہاز فرانس کے ماو¿نٹ بلینک پہاڑی سلسلے میں گر کر تباہ ہوا۔ اس جہاز کے کریش پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک کے مطابق امریکہ بھارت کا ایٹمی پروگرام روکنا چاہتا تھا۔ اس نے بھابھا کا جہاز اڑا کے رکھ دیا۔اس رائے میں وزن یوں ہے کہ جہاز پہاڑی سلسلے کے اوپر سے گزر رہا تھا کہ دھماکہ سے جہاز کا ملبہ 25 کلومیٹر میں بکھر گیا۔بھارتی ایٹمی سائنسدان کانفرنس میں شرکت کے بعد جینیوا سے واپس آرہے تھے۔یہ 16 سو سائنسدانوں کی کانفرنس تھی جس میں ان کی طرف سے نیو کلر پروگرام پر کھل کر بات کی گئی۔ کچھ عرصہ قبل جہانگیر بھابھا انڈیا اور ایشیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنا چکے تھے۔فروری 1965ءکی ایک ڈی کلاسیفائیڈ امریکی دستاویز کے مطابق انہوں نے امریکی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ کو بتایا تھا کہ انڈیا 18 ماہ میں ایک جوہری ڈیوائس تیار کر سکتا ہے اگر امریکی بلیو پرنٹ دستیاب ہو تو یہ کام چھ ماہ میں مکمل ہو سکتا ہے۔اس سے متضاد رائے رکھنے والوں کا مو¿قف ہے کہ بھابھا نے اس فلائٹ میں نہیں بلکہ دوسری فلائٹ میں آنا تھا کہ اچانک انہوں نے اس101 فلائٹ میں آنے کا فیصلہ کیا۔
اب پھر چلتے ہیں شملہ: تین جنوری 1966ءکو صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان 16 رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ۔ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔اسی روز بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی وفد کے ساتھ تاشقند پہنچ گئے۔ ان دونوں سربراہان مملکت کی تاشقند آمد کا مقصد یہ تھا کہ ستمبر 1965ءکی جنگ کے بعددونوں ممالک میں جو خلیج حائل ہوگئی ہے اسے ختم کیا جائے۔ سوویت یونین ان مذاکرات میں ثالث کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔
 مذاکرات سات دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔دوسری طرف پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے۔شہاب کہتے ہیں کہ روسیوں کی مداخلت سے شاستری جی کسی قدر پسیجے اور پاکستانی وفد کو مذاکرات کے دوران کشمیر کا نام لینے کی اجازت مل گئی۔ البتہ بھارتی وزیراعظم کا رویہ بدستور سخت اور بے لوچ رہا۔ ان کے نزدیک مسئلہ کشمیر طے ہو چکا تھا اور اب اسے ازسرنو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بھٹو کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو بغیر کوئی معاہدہ کیے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شروع میں صدر ایوب بھی اس خیال سے متفق تھے لیکن روسی وزیراعظم مسٹر کوسیگن نےپے درپے چند ملاقاتیں کرکے ان پر کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کا رویہ بدل گیا اور وہ دفعتاً اس بات کے حامی ہو گئے کہ کسی معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہمیں تاشقند سے واپس جانا زیب نہیں دیتا۔
مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر نے، بقول قدرت اللہ شہاب غصے میں ڈانٹ کر کہا ”الو کے پٹھے بکواس بند کرو۔“ بھٹو نے دبے لفظوں میں احتجاج کیاکہ سر آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ہو گا۔ غالباً یہی وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے صدر ایوب اور بھٹو کے راستے الگ الگ ہو گئے۔روسی وزیراعظم کوسیگن اورصدر ایوب کی ایک یا دو ملاقاتیں ایسی تھیں جن میں پاکستانی وفد کا کوئی اور رکن موجود نہ تھا۔ اسی بات کی آڑ لے کر بھٹو نے صدر ایوب کے خلاف یہ شوشہ چھوڑا کہ معاہدہ تاشقند میں کچھ ایسے امور بھی پوشیدہ ہیں جو ابھی تک صیغہ راز میں ہیں اور وہ بہت جلد ان کا بھانڈا پھوڑنے والے ہیں۔بھٹو دنیا سے چلے گئے لیکن وہ بھانڈا کبھی نہ پھوٹا۔
دس جنوری 1966ءکو ایوب خان اور شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیئے۔مسٹر کوسیگن نے اس پر اپنی گواہی ثبت کر دی۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ اگست 1965ءسے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔
اس کے بعد خوشی منانے کی غرض سے دو تقریبات منعقد ہوئیں ایک توبین الاقوامی صحافیوں کی پریس کانفرنس کا استقبالیہ دوسرا مسٹر کوسیگن کا دونوں وفود کے لیے ایک شاندار اور پر تکلف ڈنرتھا۔ ان دونوں تقریبات میں پاکستانی وفد کے ارکان کسی قدر بجھے بجھے اور افسردہ تھے لیکن بھارتی ارکان خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور چہک چہک کر اپنی شادمانی اور مسرت کا برملا اظہار کرتے تھے۔لال بہادر شاستری بھی خوشی سے سرشار تھے۔ شادیِ مرگ نے انہیں آدبوچا اور دو تین گھنٹوں کے اندر دل کی حرکت بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔
شاستری کی موت کے حوالے سے دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد شاستری بہت دباو¿ میں تھے۔انھوں نے رات گئے اپنے گھر دلی میں فون ڈائل کیا۔ کلدیپ نیئر کہتے ہیں فون ان کی بڑی بیٹی نے اٹھایا جسے کہا کہ للیتا جی سے بات کرائے۔بیٹی نے کہا کہ اماں فون پر نہیں آئیں گی۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ جواب آیا اس لیے کہ آپ نے حاجی پیر اور ٹیتھوال پاکستان کو دے دیا اور وہ اس بات سے بہت ناراض ہیں۔ شاستری کو اس بات سے بہت صدمہ پہنچا۔پھر انھوں نے اپنے سیکرٹری کو فون کر کے انڈیا سے آنے والے ردعمل کے بارے میں جاننا چاہا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ اس وقت تک دو بیان آئے تھے، ایک اٹل بہاری واجپائی،دوسرا کرشنا مینن کا اور دونوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔شاستری اس صدمے کو دل پر لے کر اگلے جہان سدھار گئے۔شاستری کی موت کے بارے میں تیسری رائے بھی ہے۔ انکی اہلیہ للیتا عمر بھراور ان کے بیٹے انیل شاستری اب بھی کہتے ہیں کہ لال بہادر شاستری کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن