ایران اسرائیل کشیدگی اور امریکا

ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد مشرق وسطی میں صورتحال مزید کشیدگی ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیوں کہ ایران کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے بھی جوابی حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جو ظاہر ہے کہ اگر ہوتا ہے تو اس سے ایران اشتعال میں آئے گا اور جنگ کا الاو مزید بھڑک سکتا ہے جس کو روکنا پھر شاید کسی کے بس کی بات نہ رہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میںشہادت کے بعد ایران کی جانب سے اسرائیل پر درجنوں میزائل داغے گئے ہیں، ایران کی جانب سے ان حملوں کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایرانی صدر کے مطابق، اسرائیل نے ایران کے معزز مہمان کو شہید کر کے کشیدگی کا آغاز کیا، خطے میں کشیدگی وسیع کرنا امریکا اور یورپ کے مفاد میں نہیں، یورپی ممالک اور امریکا اسرائیل کے بڑھتے جرائم کو رکوائیں، اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی کوشش کی تو ایران کا جواب زیادہ سخت اور طاقتور ہوگا جبکہ اسرائیلی فوجی تنصیبات پر ایرانی میزائل حملوں کے بعد امریکی صدر یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل پر واضح کردیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت نہیں کرتے، ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں گی، امریکا اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھے گا، 
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایران اور اسرائیل کے دوسرے کے مدمقابل دکھائی دیے، اسرائیلی مندوب نےاپنی گفتگو کے دوران کہا کہ میزائل حملوں کی ایران کو بھاری قیمت چکانی ہوگی، ایران کو ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اس کے تصور سے باہر ہوں گے، اسرائیلی مندوب کی دھمکیوں کے جواب میں ایرانی مندوب نے کہا کہ اسرائیل کی گزشتہ دو ماہ سے جاری اشتعال انگیز کارروائیوں کے جواب میں اور خطے میں توازن کے لیے ایران کے میزائل حملے ضروری تھے، اسرائیل کو ہر اشتعال انگیزی کے نتائج بھگتنا ہوں گے، اسرائیل خطے کو ناقابلِ بیان تباہی کے دہانے پر دھکیل رہا ہے، کشیدگی میں اضافہ روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ اسرائیل غزہ اور لبنان میں جنگ بند کرے، ایک طرف ایران غزہ اور لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل کا جنگی جنون روکنے کا نام نہیں لے رہا، اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل نے جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی کے دوران حزب االلہ سے جھڑپوں میں 8 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو اک سال مکمل ہو رہا ہے، اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اسرائیل کسی بھی قسم کے جنگ بندی معاہدے کے لیے تیار دکھائی نہیں دے رہا، اسرائیل کی جانب سے مسلسل جنگ کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے، اسرائیل مسلسل لبنان اور ایران کی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے۔ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا کو چاہیے کہ اسرائیل کو ایران پر حملے سے باز رکھے یا اس کو تحمل میں لائے کیوں کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو تیسری جنگ کب چھڑ جائے اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کیوںکہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر ہونے والے کسی قسم کے حملے کی حمایت نہیں کریں گے لیکن میرے خیال میں امریکی صدر کو اب اس سے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ امریکا ہی ایک ایسا ملک ہے جو مشرق وسطی کی جنگ کو روک سکتا ہے کیوں کہ چین اور روس تو کبھی نہیں چاہیں گے کہ امریکا کا اس خطے میں کردار بڑھے اور اگر امریکا اس جنگ کو رکوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو امریکا کا اس خطے میں دوبارہ اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے جو کسی صورت چین اور روس کو گوارہ نہیں ہو گا، اور بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چین اور دیگر امریکا مخالف قوتوں کی خواہش ہے کہ اگر اسرائیل اس جنگ کو طول دیتا ہے اور ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کرتا ہے تو امریکا ہر صورت اس جنگ میں کودے تاکہ امریکا کو ایک نئے جنگ کے میدان میں پھنسایا جا سکے۔
 بہرحال جو بھی ہو اس وقت امریکی کردار بہت اہم ہے اور امریکا کے فیصلہ سازوں کو اب یہ احساس کرنا چاہیے کہ اس جنگ کی بدولت ہزاروں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اگر یہ جنگ ایران کے دروازے تک جاتی ہے تو خدشہ ہے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑے گی اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً اس کا زیادہ نقصان ایشیائی ممالک کو اٹھانا پڑے گا اور مشرق وسطی کا امن تباہ تو پہلے ہی ہے اور جو چند ممالک اس جنگ سے بچے ہوئے ہیں تو پھر انھیںبھی اس جنگ میںکودنا ہو گا اور ایسی صورتحال میں جتنی بھی عالمی طاقتیں ہیں ان کے لیے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہوگا اس لیے ابھی بھی وقت ہے اس جنگ کو رکوایا جائے تاکہ معصوم جانوں کا ضیاع جتنا جلدی ہوسکے اس پر روک لگائی جاسکے۔ ایران نے میزائل حملے کر کے اپنی بھڑاس نکال لی ہے اور اسرائیل کو بھی کوئی اتنا نقصان نہیں ہوا تو ایسے میں اسے بڑی جنگ کا میدان بنانا شاید بیوقوفی ہی ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن