کیا آئینی؟ کیا غیر آئینی؟

لگتا ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال جس طرح کا پاکستان چاہتے تھے اور جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بے گھر اور دربدر ہوئے۔ اُس پاکستان سے ہم کوسوں میل دُور جا چکے ہیں۔ اقتدار کی ہوس میں بانیانِ پاکستان کی اس مملکت کے77سالوں میں پرخچے اُڑا کر رکھ دیئے گئے ہیں نہ ہی یہ مملکت اسلامی فلاحی جمہوری بن سکی اور نہ ہی یہاں کے باسیوں کو سُکھ نصیب ہو سکا۔ وجہ کیا ہے؟ تمام اداروں کا آئینی حدود سے تجاوز کرنا۔ یہاں اربوں لُوٹنے والا بھی عدالت سے نکل کر ”وِکٹری“ کا نشان بناتا ہے اورآئین کو پاﺅں تلے روندنے والا بھی پُورے نظام کو للکارتا ہے۔ احتساب کا تو نام و نشاں ہی نہیں ہے۔ عام شہری کو کوئی ایک بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں۔ روتا ہے، چلاتا ہے، چیختا ہے بالآ خر مَر جاتا ہے۔ کسی ایک کو بھی اُس کی پرواہ نہیں ہے 
قافلہ حجاز میں ایک حُسینؑ بھی نہیں
پاک فوج کو متنازع بنا دیا گیا ہے، عدالتوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ بچا کیا ہے ؟ ہو کیا رہا ہے؟ ہونے کیا جا رہا ہے؟ کسی کو کوئی خبر نہیں۔ عام شہری مسائل سے تنگ ہیں۔ حکمران طبقہ ہشاش بشاش عیاشیوں میں مگن ہے۔ نہ کوئی نظریہ نہ اُصول؟ ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دینے والے ذاتی مفادات کے لیے یک جان دو قالب کی عملی تصویر ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کی حکومت پندرہ ماہ پہلے ختم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ پانچ سال پورے کر لیتی، بعد میں عوام اُس کی کارکردگی کی بنا پر فیصلہ کرتے۔ کہاجاتا ہے کہ 2018ءمیں الیکشن چُرایا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم اور ن۔ لیگ کے سابق راہنما بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہاں پر الیکشن چُرایا جاتا ہے اور ہم نے بھی الیکشن چُرائے ہیں“ تو 2018ءکا اگر چوری شدہ الیکشن تھا بھی تو پندرہ ماہ برداشت کر لیتے؟ تو آج شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کہتے ہیں کہ ایک جُھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جُھوٹ بولنے پڑتے ہیں پھر بھی وہ جھوٹ ہی رہتا ہے۔ یہی حال موجودہ حکومت کا ہے۔ اُس پارٹی کوناجائز حربے استعمال کر کے مظلوم بنا دیا گیا ہے۔ پھر 8فروری کو حکومت کو الیکشن کے رزلٹ ہی اِدھراُدھر کرنے پڑ گئے۔ تشدد، ظلم اور سختیاں حالات کوزیادہ بگاڑتے ہیں۔ اب وہی صورتِ حال ہے۔ آپ ”آئینی عدالت“ بنانے کا اور نئی ترامیم لانے کے لیے جنگ جاری ہے۔ کیا سپریم کورٹ غیر آئینی ہے؟ ہم نے تو آج تک سپریم کورٹ کے علاوہ کبھی کسی عدالت کو بڑا نہیں سمجھا۔ سوائے رب العالمین کی عدالت کے جو سب سے بڑی ہے۔ اس کا ہمیں خوف ہی نہیں ہے۔ کیا ہم نے واپس اللہ کے پاس نہیں جانا ہے؟ ہمیشہ کے لیے اِدھر ہی رہنا ہے۔ جج کو ہر حال میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ بہت اہم منصب ہے۔ اُس کے فیصلوں سے کسی بھی فریق کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔ جج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی جوابدہ ہے۔ ججز کی تقسیم سے ہماری عدلیہ کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی ہے۔ P.D.M.کے دور میں قاضی فائز عیسیٰ صاحب پارلیمنٹ میں چلے گئے۔ ہمیں یہ مناسب نہیں لگا تھا۔ پھرایک پارٹی کی طرف سے کھلے لفظوں میں کہا جاتا رہا کہ جب اگلے چیف جسٹس آئیں گے تب میاں صاحب واپس آئیں گے۔ سب نے دیکھا ایسا ہی ہوا۔ میاں صاحب کے سارے مقدمات بھی ختم ہوگئے۔ چند دِن قبل قاضی فائز عیسیٰ کا پُتلا سپریم کورٹ کے باہر وکلا نے نذر آتش کیا؟ یہ سب کیا ہے؟ بخدا رونا آتا ہے، دُکھ ہوتا ہے۔ نئی ترامیم کیا کسی فردِ واحد کے لیے لائی جا رہی ہیں۔ ”آئینی عدالت“ میں اپنی مرضی کے جج لگائے جائیں گے ؟ تو اُن کے فیصلوں کو کون تسلیم کرے گا؟ یا کیا وہ ججز اللہ کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔ رُک جائیے بس کیجئے بہت ہو گیا ہے۔ قائد و اقبال کے پاکستان کی مزید توہین تو نہ کیجئے۔ اندرونی و بیرونی طور پر ہم رُسوا ہو رہے ہیں۔ آئین پر عملدرآمد کا یہ عالم ہے کہ 73ءکے آئین کے مطابق پندرہ سال کے اندر 1988 ءتک ہم نے اُردو زبان کو پورے ملک میں سرکاری طورپر نافذ کرنا تھا۔ نہ قائد اعظم کے فرامین کو ہم نے مقدم سمجھا اور 73ءکے آئین کے مطابق آج 36سال بعد بھی قومی زبان اُردو کو ہم نافذ نہیں کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں 77سا ل بعد بھی زبان کے حوالے سے ہم ”گونگے“ ہیں۔ اب ”آئینی عدالت“ بنا کر من پسند جج بٹھا کر اور اُن سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا کے مزید جگ ہنسائی نہ کرائیے۔ محبت اور امن کے راستے کو اپنائیے۔ ”ذاتی مفادات“ سے نکل کر ”ہوسِ اقتدار“ کو بالائے طاق رکھ کر صرف ملک اور ملک کے باسیوں کا سوچیئے۔ آئین شکنی اور کرپشن کے حمام میں سوائے جماعت اسلامی کے ساری پارٹیاں ننگی ہیں۔ سب مِل بیٹھ کر مثبت حل نکالیے۔ چائنہ ایک سال بعد ہم سے آزاد ہوا، آ ج وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم 77 سال کے بعد بھی پُوری دُنیا سے قرضے لے کر گذر بسر کر رہے ہیں۔ اُدھر قانون کی حکمرانی اور کرپشن کی سزا موت مقرر ہے اور ہمارے ہاں قانون پر عمل کرنے کی بجائے من پسند ترامیم لا کر دوسروں کو پھنسانے کے حربے تلاش کیے جاتے ہیں۔ اُدھر کرپشن کی سزا موت اور ہمارے حکمرانوں نے 50کروڑ تک کرپشن جائز قرار دے رکھی ہے۔ جب بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو عمارت کیسے کھڑی ہو گی۔ پارلیمنٹ مکمل طورپر عوام کی نمائندہ ہو تب ملک آگے بڑھے گا۔ ترقی کی منازل طے کریگا۔ اللہ کرے کہ 77 سالوں کے بعد ہی ہم بانیانِ پاکستان کے پاکستان کی تلاش میں نِکل پڑیں۔ آمین!

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن