چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی وسیع تر بنچ نے آئین کی دفعہ 63۔اے کی تشریح سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کیخلاف وفاق پاکستان اور الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت کسی پارٹی کے منحرف رکن کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا اور قرار دیا گیا تھا کہ کسی منحرف رکن کا ڈالا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہ کیا جائے۔ گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا جس پر فاضل چیف جسٹس نے انہیں عدالتی معاون کی حیثیت سے اپنے دلائل پیش کرنے کیلئے کہا۔ اپنے دلائل میں ایک موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فاضل عدالت اپیلیں منظور کرکے ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دیگی جس پر چیف جسٹس نے انہیں باور کرایا کہ وہ اپنے الفاظ کا چناﺅ درست رکھیں۔ انکے الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں بھی آسکتے ہیں کیونکہ وہ بہت لوڈڈ سٹیٹمنٹ دے رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے‘ ہم بتائیں گے تو آپ کو بہت شرمندگی ہوگی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں دیئے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے‘ کسی بنیادی حق کے حصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا۔ آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے مگر یہ نہیں لکھا کہ سیاسی جماعت الیکشن بھی لڑ سکتی ہے۔ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا۔ اس موقع پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے۔ یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی رکن کے منحرف ہونے کا ڈکلیئریشن دے یا نہ دے۔ ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے پارٹی سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔ دوران سماعت یہ قانونی نکتہ بھی زیربحث آیا کہ آئین کی کسی آرٹیکل یا شق کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ کو بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر عدالت اپنی رائے دیتی ہے یا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس کا تعین بھی فاضل عدالت ہی کر سکتی ہے۔ انہوں نے فاضل چیف جسٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میرا مشورہ ہوگا آپ تمام فاضل ججز آپس میں مل کر بیٹھیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں مفت مشورہ دے رہے ہیں تو ایک مفت مشورہ ہمارا بھی ہے کہ آپ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات طے کرلیں۔ اس موقع پر بنچ کے فاضل رکن جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر نے ہمیں جو مشورہ دیا ہے ہم اس پر غور کریں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ ججز کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے‘ ایسا نہیں ہے کہ ادارہ ٹوٹ گیا ہے۔ واضح کر دیں کہ ہمارے ادارے کے اندر کچھ نہیں چل رہا تاہم کسی نکتے پر دو آراءہو سکتی ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف ہارس ٹریڈنگ کو روکنا چاہتی تو آئینی ترمیم لا سکتی تھی۔ عدم اعتماد پر گنتی کے وقت تحریک انصاف کے لیڈر کو ووٹنگ کا خیال آیا۔ عدم اعتماد میں ووٹنگ کے وقت عدالت کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ فاضل جج نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اس تشریح کے ذریعے ججز نے آئین کو دوبارہ لکھا۔ جو ترمیم پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں کراپائے‘ وہ ججز کے ذریعے کرالی۔ کیا آئین کو دوبارہ لکھنا نظرثانی کا کیس نہیں بنتا۔ کیا کوئی جج حلف اٹھا کہ کہہ سکتا ہے کہ وہ آئین کی اس شق سے ناخوش ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ دنیا میں کسی بھی جمہوری ملک میں ووٹ نہ گننے کا قانون نہیں۔ امید ہے ایک دن ہم بھی میچور جمہوریت بن جائیں گے۔ فاضل عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے اس کیس میں متفقہ طور پر مختصر فیصلہ صادر کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرلیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ کبھی اچھا نہیں رہا۔ بالخصوص ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ایجاد کرکے آئین کو توڑنے اور ماورائے آئین اقدامات کو بھی جائز قرار دینے میں بھی کوئی تامل نہیں برتا اور بعض زورآور یا من پسند درخواست دہندگان کو عدالتی فیصلوں میں وہ کچھ بھی بخشا جاتا رہا جس کا انہوں نے نہ کبھی سوچا اور نہ اسکی استدعا کی۔ اسکے علاوہ ہماری عدل گستری میں مزید بدقسمتی یوں درآئی کہ سیاسی قیادتوں کے ساتھ عقیدت و نفرت والے کلچر نے عدالتی شخصیات کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا چنانچہ کوشش کی جاتی رہی کہ اپنے اپنے ممدوح کیلئے ممکنات سے بھی آگے بڑھ کر ریلیف کے دروازے کھولے جائیں۔ عدلیہ میں اس کلچر کو جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں زیادہ فروغ حاصل ہوا اور پھر یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آیا چنانچہ عدالتی احکام اور فیصلوں میں سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کے ایجنڈے اور خواہشات تک جھلکتی نظر آتی رہیں۔
سپریم کورٹ میں وفاق پاکستان اور الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر ہونیوالے موجودہ نظرثانی کیس کا بھی یہی پس منظر ہے کہ مارچ 2022ءمیں جب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اس وقت صدر عارف علوی کی جانب سے آئین کی دفعہ 63۔اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ آئین و قانون کی تو یہی منشاءہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی صدارتی ریفرنس میں آئین کی تشریح کے اختیار کو بروئے کار لا کر اپنی سفارشات مرتب کرے اور آئین کی متعلقہ شق میں ترمیم یا ردوبدل درکار ہو تو وہ اپنی سفارشات صدر مملکت کو بھجوا دے تاکہ ان سفارشات کی روشنی میں پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لائی جا سکے مگر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عین اس وقت اس ریفرنس کی سماعت شروع کی جب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونے والی تھی اور پھر اس ریفرنس کی سفارشات دینے کے بجائے باقاعدہ عدالتی فیصلہ صادر کر دیا جس کے تحت آئین کی دفعہ 63۔اے کی تشریح کرتے ہوئے یہ تک قرار دے دیا کہ کسی پارٹی کا کوئی رکن اپنی پارٹی کے کسی فیصلہ کیخلاف ووٹ دیگا تو اس کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائیگا۔ اسکے علاوہ جسٹس بندیال کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے بنچ نے آئین کی متعلقہ شق سے تجاوز کرتے ہوئے یہ بھی قرار دیا کہ کسی پارٹی کا کوئی رکن اپنے پارٹی فیصلے سے انحراف کریگا تو وہ ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی اپنی رکنیت سے نااہل ہو جائیگا۔ سیاسی اور آئینی حلقوں نے اس وقت بھی جسٹس بندیال کی عدالت کے اس فیصلہ کو آئین میں ازخود ترمیم کرنے کے مترادف قرار دیا تھا جس کا پارلیمنٹ کے سوا کسی دوسرے ادارے کو اختیار ہی نہیں۔ اس فیصلے کے بعد بھی جسٹس بندیال کی جانب سے پی ٹی آئی اور اسکے قائد کو انکی اپوزیشن کی تحریک کے دوران ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جس کے باعث سپریم کورٹ پر ایک پارٹی کے ساتھ فریق بننے کا لیبل لگنا قرین قیاس تھا۔
اسی سیاسی پس منظر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونا پی ٹی آئی کیلئے انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ انہوں نے ہر صورت آئین و قانون کی پاسداری و عملداری کا عہد کر رکھا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر کراکے انہیں جج کے منصب سے فارغ کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت تحریک انصاف نے قومی سیاست میں منافرت اور بلیم گیم کا جو کلچر گرما دیا ہے اس سے آئینی ریاستی ادارے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور ملک کا سسٹم بھی داﺅ پر لگا ہوا نظر آرہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے وسیع تر بنچ نے دفعہ 63۔اے کی وضاحت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف نظرثانی کی درخواستیں منظور کرکے درحقیقت سپریم کورٹ کی جانب سے اس آئینی شق میں کیا گیا اضافہ ختم کیا اور آئین کو اسکی اصل شکل میں بحال کیا ہے جو پی ٹی آئی کی خواہشات کے منافی ہے تو اسکے کارکنوں کی جانب سے چیف جسٹس کیخلاف مظاہروں کا ناخوشگوار سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں متذکرہ نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس اور بیرسٹر سید علی ظفر کی جانب سے جو صائب مشورے سامنے آئے ہیں‘ انکی بنیاد پر عدالت اور سیاست میں اپنی اپنی سطح پر اصلاح احوال کیلئے باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع ہو جائے تو سسٹم کی ڈولتی کشتی کو محفوظ بنانے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔