ڈاکٹر عتیق الرحمن
ملک کے ذمہ بھاری بھرکم قرض کی ادائیگی اور اندرونی قرض پر بے تحاشہ شرح سودکا بوجھ اس کی ترقی میںمسلسل رکاوٹ بنا چلا آ رہا ہے۔ملکی کی معیشت کے طویل المدت مالیاتی استحکام اور ترقی کے لیے ڈیبٹ ری سٹرکچرنگ ضروری ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو معیشت کا پہیہ سست روی کا شکار رہے گا۔ جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے 2018 میں اقتدار سنبھالا، تو حکومت کا اندرونی قرضہ تقریباً 16,400 ارب روپے تھا، جس میں سے 40 فیصد طویل مدتی قرض تھا۔ عام طور پر طویل مدت قرض کی میعاد 3 سے 30 سال تک ہوتی ہے اور قرض کی میعاد تک شرح سود یکساں نافذ رہتی ہے۔ یہ شرح اس وقت کے پالیسی ریٹ سے منسلک ہوتی ہے جب قرض لیا جاتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی شرح سود میں تیزی سے اضافہ کیا تھا اور اسے 6 فیصد سے بڑھا کر 13.25 فیصد تک پہنچا دیاتھا۔جس سے تمام نئے قرضے مہنگے ترین ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں ستمبر 2018 تک حکومتی قرض میں طویل مدتی قرضوں کا تناسب 40 فیصد تھا، لیکن جون 2019 تک یہ تناسب بڑھاکر 80 فیصدکر دیاگیا۔اس کے بعد2019 میں جو قرضے پی ٹی آئی حکومت نے حاصل کیے، وہ تقریباً تمام ہی طویل مدتی تھے،جن کی بھاری شرح سود ملک پر بوجھ بن چکی ہے۔ حد یہ کہ اندرونِ ملک قرضہ 16,000 ارب روپے سے بڑھ کر 28,000 ارب تک پہنچ چکا گیا ۔
اپریل 2022 میں پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالا اور شرح سود میں مزید اضافہ جاری رکھا، یہاں تک کہ یہ شرح 22 فیصد تک جا پہنچی۔ جس کے بعد بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں میں استعمال ہونے لگا ۔مئی 2024 کے بعد پالیسی ریٹ میں 4.5 فیصد کی کمی کی گئی، جس سے حالیہ مہینوں میں لیے گئے نئے قرضے سستے ہوجائیں گے، لیکن وہ طویل مدتی قرضے جو بلند شرح سود کے دور میں لیے گئے تھے، ان پر شرح سود میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی۔ ملک میں مہنگائی کی شرح جب 6 فیصد تک گر چکی ہے، اور شرح سود میں بھی کمی کا رجحان ہے، اس کے باوجود قرضوں پر ادا ہونے والا بھاری سود ملکی معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ صحت مند معیشت کے لیے اس بوجھ کو کم کرنا بے حد ضروری ہے۔اس بوجھ کو کم کرنے کا طریقہ ڈیبٹ ری سٹرکچرنگ ہے۔
ڈیبٹ ری سٹرکچرنگ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ قرضوں کی شرائط میں تبدیلی کی جائے، تا کہ قرض آسانی سے واپس کیا جا سکے۔ اس کی ایک شکل طویل مدتی قرضوں پر سود کی شرح میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔اس بوجھ میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ بینکوں سے مذاکرات کیے جائیں اور انہیں قائل کیا جائے کہ وہ طویل مدتی قرضوں پر سود کی شرح کو کم کریں۔ اگرچہ تمام اندرونی حکومتی قرضے ساورن گارنٹی کے تحت ہوتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے غیر معمولی حالات میں بینکوں کو عوامی فلاح کی خاطر شرائط میں نرمی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی قسم کی صورتحال کا سامنا حکومت کو آئی پی پیز (IPPs) کے معاملے میں بھی تھا۔ حکومت آئی پی پیز کو مقررہ معیاد تک طے شدہ شرائط کے مطابق ادائیگیوں کی پابند تھی، لیکن عوامی مطالبات اور مشکلات کے پیش نظر حکومت کے اقدامات پر آئی پی پیز مالکان کی بڑی تعداد نے نرمی دکھائی ہے۔ اسی طرح، قرضوں کے معاملے میں بھی کمرشل بینکوں کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ طویل مدتی قرضوں پر شرح سود میں کمی کریں۔
اس وقت 35,000 ارب روپے سے زائد کا طویل مدتی قرضہ واجب الادا ہے۔ اگر اس پر شرح سود میں صرف 1 فیصد کمی کی جائے تو حکومت کو سالانہ 350 ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہو سکتی ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس میں ملتان یا لاہور میٹرو بس جیسے 10 منصوبے مکمل کیے جا سکتے ہیں، یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا ایک اور فلاحی منصوبہ شروع کیا جا سکتا ہے، یا پھر 5 لاکھ بے روزگار افراد کو سال بھر کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں۔
ڈیبٹ ری سٹرکچرنگ پاکستان کی کمزور معیشت کو خاطر خواہ ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ شرح سود میں معمولی سی کمی بھی حکومت کو قابل ذکر وسائل فراہم کر سکتی ہے، جو ترقیاتی منصوبوں، سماجی بہبود کے پروگراموں اور روزگار کی فراہمی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کمرشل بینکوں کے ساتھ مذاکرات کرے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ طویل یا قلیل مدتی قرضوں پر شرح سود کو کور انفلیشن 2% سے زیادہ نہ رکھیں۔ اگر حکومت اس مطالبے کو منوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے سالانہ 3,000 ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی چیلنجز کے تناظر میں، ڈیبٹ ری سٹرکچرنگ صرف ایک مالی حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک معاشی ضرورت بن چکی ہے۔ طویل مدتی قرضوں پر بھاری شرح سود کا بوجھ حکومت کے مالی معاملات پر دباؤ ڈال رہا ہے اور وسائل کو ضروری ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں سے دور کر رہا ہے۔ اگر حکومت سود کی شرح میں کمی کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو ان وسائل کو براہِ راست عوامی فلاح کے منصوبوں میں لگایا جا سکتا ہے۔