جی کبھی ترس آیا، اللہ ہی کو آئے گا

ایک طرف سندھ میں طوفانِ بادو باراں نے سیلاب کی صورت تباہیاں مچا رکھی ہیں۔ درجنوں دیہات صفحہ¿ ہستی سے مٹ چلے اور درجنوں جاں بحق ہوئے۔ متاثرین کی تعداد روز افزوں ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ چار اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر حکومت اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو چکی۔ خانماں خراب زندگی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کی نظریں کراچی سے نہیں ہٹتیں۔ خون خرابے کے بعد جب پولیس اور رینجرز رحمان ملک کی قیادت میں پورے انہماک کے ساتھ اپریشن میں مصروف ہے ، اس وقت بھی دولہا دلہن اور ماں بیٹا سمیت 7 لوگوں کو شہید کر دیا گیا۔ ٹارچر سیل پکڑے گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو پورا شہر ہی ٹارچر سیل ہے کہ لوگ موت کی وادی میں گھومتے ہیں کسی کو خبر نہیں کہ کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے۔ اہل پاکستان ہی نہیں پردیس میں جا بسنے والے بھی روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں۔
ہماری زندہ دلی دیکھئے کہ ہرچینل پر تماشہ برپا ہے۔ تماشہ بندر کا ہو یا ریچھ کا زوال آسا لوگوں کو زیادہ کھینچتا ہے۔ غیر سنجیدہ رویوں کے ہم عادی ہو چکے۔ میڈیا والے بھی کیا کریں کہ”خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے“ تنگ آئے ہوئے لو گ تو ANIMAL DISCOVERY پر جا ٹھہرتے ہیں۔ ان دنوں ذوالفقار مرزا HOT CAKE ہیں۔ آپ کوئی سا چینل لگا لیں اینکر پرسن انہیں چھڑتا اور چٹکیاں لیتا نظر آئے گا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں دھاڑتے اور چنگاڑتے ہوئے۔ حماقت اور ذہانت میں فرق کرنے کےلئے COMMON SENSE کی ضرورت ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ COMMON SENSE IS NOT COMMON. یوں سمجھ لیجئے زیادہ سیانے بننے کی کوشش میں انسان LAUGHING STOCK بن جاتا ہے۔
منیر نیازی نے کہا تھا کہ بعض لو گ بات کرتے ہوئے صرف منہ کھول دیتے ہیں۔ بات خود بخود نکلتی جاتی ہے گویا جیسے ایک ٹیپ ریکارڈ مگر ذوالفقار مرزا اس سے مختلف ہیں انہیں معلوم ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔ کوئی اینکر ان سے زرداری صاحب کے خلاف ذرا سا جملہ بھی نہیں کہلوا سکا جبکہ وہ انہیں بری طرح EXPOSE کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ زیر دام آئے تو کئی اعتراف کر ڈالے کہ وہ نہ صرف اُم الخبائث کا شوق فرماتے ہیں بلکہ خرید کر دوستوں کو بھی فراہم کرتے ہیں۔ ذوالفقار ثانی کے اس اعتراف کے بعد کہ ”ناپ تول کے پینا مجھے پسند نہیں“ کوئی کیا کہے۔ وہ تو وزارت کے اہل تو کیا ممبر اسمبلی کے اہل بھی نہیں رہتے۔
بات بڑھائی جائے تو پہلے والی بات بھی نہیں رہتی۔ زرداری نے مرزا صاحب کو کھلا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ زیادہ مہلک ہو گئے ہیں۔ اب کے وہ چیف جسٹس پر حملہ آور ہوئے بقول ان کے چیف جسٹس کراچی کی قتل وغارت میں برابر کے شریک ہیں کہ انہیں سوموٹو ایکشن لینا چاہئے تھا۔ انہیں این آر او کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چیف جسٹس کے کس حکم پر حکومت نے عمل درآمد کیا ہے اگر عمل درآمد کیا بھی ہے تو ا یسے کہ بددیانتی چھپائے نہیں چھپتی۔ حج سکینڈل کو ہی دیکھ لیں، مرزا صاحب کی تجاہل عارفانہ دیکھئے کہ اصل حقیقت پر بات ہی نہیں کر رہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ کراچی مفادات کی جنگ میں گھرا ہوا ہے تنیوں اتحادی پارٹیاں برابر کی شریک جرم ہیں۔ لینڈ مافیا، بھتہ مافیا اور ڈرگ مافیا یہ تینوں جماعتوں سے الگ یا بالا نہیں۔ خود مرزا صاحب لانڈی کو بلاول کے لئے کلیئر نہیں کر رہے؟
امن اور بھائی چارے کےلئے ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے لالچ اور خود غرضی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ظرف کسی میں بھی نہیں۔ ہر جگہ انصاف اور عدل کا فقدان ہے۔ تعصب کا دور دورہ ہے۔ ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم اور رحمن ملک پر تو سنگین الزامات دھر دیئے مگر زرداری صاحب کو بچا لے گئے۔ کیا کرپشن کو چھپانا یا نظر انداز کرنا کرپشن نہیں؟ کیا کرپشن ملک دشمنی نہیں؟ کیا قرآن پاک اٹھا کر صرف دوسروں کے بارے میں ہی سچ بولا جا سکتا ہے؟ شراب کے رسیا شخص کا قرآن اٹھانا کیا اہمیت رکھتا ہے؟ کسی مفتی سے پوچھنا پڑے گا۔ وہ شراب کے نشے میں بھی پورا سچ نہیں بولتے۔
جنرل ضیاالدین کی بات دل کو لگتی ہے کہ اگر کراچی کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو یہ شہر بیروت بن جائے گا۔ اس سے پہلے کہ فوج خود آئے اسے قانونی طور پر بلانا چاہئے اب تو ہم بھی فو ج کے قائل ہونے لگے کہ جمہویت ہم سے کافی انتقام لے چکی۔ حکومت مہنگائی کی آگ پر اپنا دودھ ”کاڑھ“ رہی ہے ا ور بالائی اکٹھی کر رہی ہے۔ اقربا پروری اور دوست نوازی میں اعزازات اور دولت کی بندر بانٹ جاری ہے‘ ایک پارٹی بوٹیاں نوچ رہی ہے تو دوسری دانت تیز کر رہی ہے۔ لو گ جنگل میں جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ سوئے آسمان دیکھئے تو اللہ بھی ناراض نظر آتا ہے بارشوں نے بستیاں ڈبو دی ہیں۔ شاید ہمارے حکمران ہمیں ہمارے اعمال کی صحیح سزا نہیں دے پائے۔ بہر حال رجوع تو ہمیں اپنے رب کی طرف ہی کر نا ہے جو بھی ہے ہم اس کے رسول کی امت میں سے ہیں۔ جب بھی ترس آیا تو اللہ ہی کو آئے گا حکمران تو شقی القلب ہیں۔ فیض صاحب تو بہت پہلے کہہ چکے:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے

ای پیپر دی نیشن