وہ سب انڈینز تقریبا تین سال سے میری gymکی دوست ہیں۔ اور کچھ دن پہلے مجھ پرحیرت کا پہاڑ ٹوٹا جب میری ایک دوست جو کہ انڈین مگر کیتھولک ہے، نے مجھے بتایا کہ "کچھ دن پہلے ہی گروپ کی باقی لڑکیوں کو پتہ چلا ہے کہ تم مسلمان ہو اور پاکستانی ہو۔ ہماری نسل میں اور خاص کر کہ وہ لوگ جو انڈیا سے کینڈا یا دوسرے مغربی ممالک میں آگئے گو کہ تعصب کم ہے مگر پیچھے ( انڈیا ) مسلمانوں کے گھروں میں کھانا پینا اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا، اس لئے کچھ نہ کچھ اثر ہم سب میں بھی ہے " ۔ وہ مزید بولی اسی لئے فلاں کی ماں نے فلاں دن تمھارے گھر سے کچھ نہیں کھایا تھا، ہم لوگوں کی نسل پھر بھی کچھ قدم آگے نکل آئی ہے مگر ہمارے بڑوں کا رویہ ابھی بھی وہی ہے۔کوئی کچھ کہہ دے تو مائنڈ نہ کرنا ۔۔۔مگراس بات سے مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔ مجھے اس بات کا اندازہ کیوں نہیں تھا ؟ یا جب ہماری حکومتیں، ہمارے لوگ انڈیا کے ساتھ محبت اور بھائی چارے یا حتی کہ امن کی بات کرتے ہیں تو ان کو اندازہ کیوں نہیں ہوتا ۔۔کس بات کا اندازہ ؟ اس بات کا اندازہ کہ یہ برطانوی راج کے فقط سو سال کی داستان نہیں یہ کہانی بہت پرانی ہے ۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی کتاب "GLIMPSES OF WORLD HISTORY" ـجو نہرو صاحب کے اُن خطوط پر مشتمل ہے جو انہوں نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو جیل سے 1933میں لکھے ۔وہ ہندوستان کی تاریخ بتاتے ہوئے کہتے ہیں "ہم ہندو ہندوستان کی ہزاروں سال کی تاریخ کے وارث ہیں "
کلیم صدیقی اپنی کتاب "conflict, crisis &war in pakistan" میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کا پاکستان کیلئے مالیخولیا یابڑائی کے جنون کا تعلق اُس بے عزتی کے احساس سے ہے جو انہیںبارہویں صدی(قطب الدین ایبک کے دور حکومت سے لے کر کئی سال تک ) میں مسلم اقلیت کی ان پر حکمرانی سے سہنا پڑ اتھا اور جب وہ برٹش کے جانے کے بعددوبارہ سے "بھارت ماتا "پر راج کرنیوالے تھے عیار مسلمان نے پھر سے ماتا کے ٹکڑے ٹکرے کر دئیے ۔ اور ہندو پر یہ نہ ختم ہونے والا خوف طاری ہوگیا کہ مسلمان پھر سے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے ۔ کرشنا مینن ،نہرو کا مشیرِخاص اور دفاعی وزیر(1960 )تک ،پاکستان کو بر صغیر میں مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کہ پہلی قسط گردانتا تھا "۔
کلیم صدیقی مزید لکھتے ہیں" دوسری طرف مسلمانوں کو دیکھیں تو ان کی تاریخ ،ان کا ماضی اُن کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کے وہ علاقے جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں اپنی حکمرانی میں رکھیں اس لئے پاکستان کا بننا ، ہند و انڈین خواب کا بکھرنا تھا ،جس کا کچھ حصہ فورا ہی مسلم کشمیر پر قبضہ کر کے دوبارہ حاصل کرلیا گیا ۔ نہرو اس خواب کے بکھرنے کے ذکر پر ہمیشہ ہی جذباتی ہوجاتے تھے اور وہ ہمیشہ بیرونی دنیا کو انڈیا پاکستان کے تعلقات کی صحیح سمجھ نہ ہونے کا الزام دیتے تھے ۔بندے ماترم جیسا مذہبی رنگ والا ملی نغمہ اور بال گندھار تلک مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے اور جو مزاحمت کرتے انہیں قتل کر نے جیسے جرم کو مذہبی کتاب گیتا کے حوالے کی آڑ میں چھپا دیتے ۔گاندھی جی کی ہندو revivalismنے ہند و انتہا پسندی کو فروغ دیا اور خود انہیں اُس وقت کسی ہندو انتہا پسند نے قتل کر دیا جب وہ تقسیم کے وقت مسلمانوں کا قتل ِ عام روکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ نہرو انتہا پسند نہیں تھے اور انہوں نے انڈیا کے آئین کو سیکولر کیا مگر اسکے باوجود آج تک وہاں پر نہ ذات پات کا نظام ختم ہوسکا اور نہ ہی مسلمانوں کیخلاف جذبات کم ہوسکے ۔حتی کہ نہر و کاسیکولرازم بھی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہندو انتہا پسند تنظیموں کا محتاج تھا ۔ انڈیا کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے خلاف رنجش رکھنا انڈیا کے اندرونی استحکام کے لئے ضروری مانا جاتا ہے ۔یہ اس امید کو زندہ رکھتا ہے کہ بھارت ماں پھر سے ایک ہوجائیگی ـ۔ دوسری طرف مسلمان بھی اپنے شاندار ماضی میں گُم ہیں جس میں دمشق،بغداد اور قُرطبہ پر حکمرانی ۔بابر ،صلاح الدین اور طارق کی شاندار فتوحات ۔ مسلمان کی شناخت کوئی علاقہ ، زبان یا خطہ نہیں تھا ۔
1947کی تقسیم نہ صرف ہندو کا مدر انڈیا کا خواب بکھیرنے کا باعث بنی بلکہ آسام ، بنگال اور پنجاب کی غلط تقسیم سے مسلمانوں کو بھی تہی دامن کر گئی اور بقول قائد اعظم moth eatenپاکستان انہیں تھما دیا گیا اور انڈیا نے کشمیر پرفورا ہی قبضہ کر کے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔اور یہ ایک بے حس حماقت تھی جس نے بر صغیر کی تاریخ کو منجمدکر دیا ۔ لہٰذا 1947سے آج تک پاکستان اور انڈیا کے آپسی تعلقات کی کہانی دو بکھرے ،نامکمل ادھورے جسموں کی ہے جو اپنے آپ کو دوسرے کی قیمت پر مکمل کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں "
قوم پرستی ہے کیا ؟ اپنی قوم پر فخر کرنا ،جیسے ہٹلر کے مطابق جرمنی سب سے اوپر اور بش کے مطابق امریکہ خدا کا گھر ، اور مسلمانوں کے مطابق نہ صرف دنیا بلکہ جنت بھی صرف ان کی ۔ہندئوں کے لئے ہندوستان ان کی ماں ۔قوم پرستی میں محبت پرستش کی حد تک چلی جاتی ہے ،چاہے انسان حق پر ہو یا نہ مگر اپنی قوم کی ہی حمایت کرتا ہے ۔قومی تحفظ ،جس میں نہ صرف وہ اپنا دفاع کرتا ہے بلکہ اپنے بچائو کیلئے دوسری قوموں پر حملہ بھی کرسکتا ہے ۔ طاقتور بننے کا جنون ۔یہ سب باتیں ہم انڈیا میں دیکھتے ہیں کیونکہ وہ بے شناخت قوم نہیں ہے ۔ قوم پرستی خود سے محبت تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں مگر جب دوسروں سے نفرت اس کا لازمی جُز بن جائے تو وہی ہوتا ہے جو ہمیں ہر جگہ نظر آرہا ہے پاکستانی ابھی تک شناخت کی تلاش میں ہے ۔ وہ ہندوستان کی تاریخ کے شاندار ابواب کے لکھاری بھی ہیں ، عرب ممالک کے ساتھ مسلم امہ ہونے کے ناطے اپنے آپ کو جڑا ہوا پاتے ہیں ۔ بہت بہتر ہو کہ ہم ماضی کے جھروکوں سے نکل کر مستقبل کے فیصلے کریں۔ قوم پرستی یہ ہو کہ اپنی قوم کو خوشحالی اور انصاف دینا ہے ، محبت اور امن دینا ہے تو قوم پرستی سے کسے انکارہے۔