حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ لگتا ہے کہ بیروزگاری‘ مہنگائی‘ کرپشن‘ دہشت گردی ‘ لاقانونیت کی طرح لوڈشیڈنگ بھی پاکستانی عوام کا مقدر بن چکی ہے جس سے نبرد آزما ہونا شاید حکمرانوں کے بس میں ہی نہیں ہے۔ کچھ عرصہ سیاستدان لوڈشیڈنگ پر ہی سیاست کر رہے ہیں۔ حالانکہ بے شمار دیگر مسائل ہیں مگر انہیں بالکل نظر انداز کر کے صرف ”لوڈشیڈنگ کا خاتمہ “ ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں پیپلزپارٹی اور اتحادیوں نے جہاں عوامی مسائل کو یکسر انداز کیا تھا۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لئے بھی ان کی ”خدمات“ منفی صفر ہی رہیں بلکہ سابق وزیراعظم پرویز اشرف کو رینٹل پاور کے کیس میں ملزم نامزد ہونے کی بناءپر ”راجہ رینٹل“ کا ”خطاب“ بھی قوم سے ملا۔ پھر میاں نوازشریف صاحب نے بھی الیکشن مہم میں لوڈشیڈنگ کو اپنانعرہ بنایا۔ چھوٹے بھائی شہبازشریف صاحب تو اسے گھنٹوں اور مہینوں میں ختم کرنے کے دعویدار تھے مگر نوازشریف نے تین سال میں ختم کرنے کا نعرہ لگایا۔ عوام خوش تھے کہ لوڈشیڈنگ کے اس جان لیوا۔ عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ لوگوں کے کاروبار جو اس کی وجہ سے بند ہیں۔ صنعتیں‘ کارخانے بند ہیں سب دوبارہ کھل جائیں گے۔ مگر یہ بھی ایک ”خواب“ہی تھا۔ میاں نوازشریف صاحب نے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد سب سے پہلے میاں شہبازشریف کے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے وعدوں کو ”جذباتی “ کہہ کر یکسر مسترد کر دیا۔ اگر نواز شریف صاحب الیکشن مہم کے دوران ہی ان کے وعدوں کو ”جذباتی “ قرار دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا بہر حال ضمنی الیکشن سے قبل وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے پانچ سال مختص کر دئیے ہیں دوسرے لفظوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی پارلیمنٹ کی آئینی مدت سے مشروط کردیا گیا ہے۔ یہ بھی سمجھ لیناچاہئے کہ اقتدار کا خاتمہ تو ہوسکتا ہے۔ مگر لوڈشیڈنگ کا شاید ممکن نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے قوم کو یہ بھی بتایا کہ 480 ارب روپے کمپنیوں کو ادا کئے جا چکے ہیں ”موصوف“ نے 480 روپے کی ادائیگی کے بارے میں مشکلات کا بھی بتایا کہ پتا نہیں ہم نے یہ پیسے کیسے دئیے ہیں۔
بہرحال موجودہ حکوت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لئے جو ”ہنگامی“ بنیادوں پر کام کئے ہیں انہیں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور برملا حکومت کی اس ”جدوجہد“کو سرعام تسلیم کرنا چاہئے۔ ویسے تو ہر محکمے کا ایک وزیر مختص ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت نے جنگی بنیادوں پر اس کے خاتمہ کے لئے دو وزیر بنا دئیے ہیں۔ عابد شیر علی وزیر مملکت بجلی و پانی ہیں اور خواجہ آصف وفاقی وزیر بجلی و پانی ہیں عابد شیر علی صاحب کا جنگی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے ”بیانات“ دے کر عوام کو حوصلہ دینا اور مایوس ہونے سے بجانا ہے۔ لہذا ہر روز عابد شیر علی صاحب کا ایک بیان آپ کو ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ خواجہ آصف نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ میری وزارت کے 2 ہوں گے۔ ایک غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی اور دوسرا غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ بہرحال خواجہ صاحب شاید مصروف ہوتے ہیں غیر اعلانیہ اور غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ جاری و ساری ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ بھی کریڈٹ ہے کہ عوام کو مستقبل کی مشکلات سے آغاز میں ہی خبردار کر دیتے ہیں جیساکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار مستقبل کی مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں پہلے ہی دے دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے ”عوام کی خدمت“ ہے۔
عوام کو سمجھ جانا چاہئے کہ جس طرح دیگر مسائل ان کے مقدر میں لکھے جا چکے ہیں اوران کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کو بھی اپنا ”مقدر“ سمجھتے ہیں ”عار“محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ اگر عوام زیادہ شور ڈالیں گے تو حکومت عوام کی پریشانی کو ملحوظ خاط رکھتے ہوئے دو وزراءکے علاوہ مزید دو تین وزیر بجلی و پانی بنا دیں گے۔ یہ ”اقربا پروری “ نہیں ہو گی۔ کیونکہ حکومت کو ”جنگی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے یہ سب ”قربانیاں“دینا پڑ رہی ہیں۔
”لوڈشیڈنگ بھی عوام کا مقدر“؟
Sep 05, 2013