آج کل دنیا کے تمام دارالحکومتیں فوجی ہیڈ کوارٹرز ایوان ہائے اقتدار شہروں دیہاتوں اور قہوہ خانوں میں بس ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ امریکی برطانوی اور فرانسیسی افواج شام کے اہم فوجی اور اقتصادی مراکز پر سرجیکل سٹرائیکس کب کریں گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی شامی صدر بشار الاسد کے خون کے پیاسے ہیں وہ کئی ماہ سے ملک میں جاری خانہ جنگی کی آڑ میں موجودہ شامی حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار باغیوں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ مزید برآں ان کی خواہش ہے کہ شام کی اہم تنصیبات پر فضائی حملے کر کے اس کی فوجی قوت کو مفلوج کر دیا جائے تاکہ یہ بالخصوص اسرائیل کےلئے اور بالعموم ترکی اور سعودی عرب کےلئے فوجی خطرہ نہ رہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران میں حالات نے اتنی تیزی سے پلٹا کھایا کہ ایسا لگ رہا تھا امریکی صدر باراک اوباما کسی وقت بھی بحیرہ روم میں تعینات اپنے بحری بیڑے کو شام کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے احکامات صادر کر دے گا۔ اس شعلہ فشاں صورتحال کا باعث امریکہ کا یہ الزام تھا کہ بشار الاسد کی حکومت نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بڑے وثوق سے دعویٰ کیا کہ 21 اگست کے روز کئے گئے حملہ کی جگہ سے اکٹھے کئے گئے شواہد اور فضائی نمونوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ سارین گیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جن کیری نے کئی امریکی ٹی وی چیلنوں کو انٹرویوز دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ مشرقی دمشق میں پہنچنے والے میڈیکل رضا کاروں نے یہ نمونے جمع کئے تھے۔ اس نے این بی سی کو بتایا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے بشارالاسد کو خونی ڈکٹیٹروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ سارین ایک بے رنگ بے بو مائع ہے جو کہ فوراً ایک زہریلی گیس میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کہ اعصابی نظام پر حملہ کرتی ہے جس سے متاثرین ایک منٹ کے اندر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر687 نے سارین کو وسیع پیمانے پر ہلاک کرنے والا ہتھیار قرار دیا تھا جبکہ کیمیکل ویپن کنوہنشن 1993ءنے اس کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جان کیری کے بیانات کے مطابق21 اگست کے کیمیائی حملے میں 1400 افراد ہلاک ہوئے جن میں 400 بچے شامل تھے۔ دوسری جانب امریکہ کے سب سے اہم اتحادی برطانیہ کی پالیمنٹ میں شام پر حملہ کرنے کے حوالے سے گروہ بندی ہو گئی ہے جس سے وزیراعظم کیمرون کے لئے حکومتی سطح پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسی طرح جرمنی نے بھی بشار الاسد کی حکومت گرانے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ سابقہ عالمی سپرپاور نمبر 2 روس نے بھی کیمیائی ہتھیاروں کے سلسلے میں لگائے گئے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ نامکمل اور نا کافی ہیں ماسکو نے شام پر امریکی حملے کی مخالفت کی ہے چین بھی شام میں غیر ملکی فوجی حملوں کا مخالف ہے۔ ایران نے بھی متنبہ کیا ہے کہ شام کے خلاف امریکی حملے سے پورے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہ ا ہے کہ امریکی کانگرس شام پر فوجی کارروائی کی اجازت نہیں دے سکتی سابق ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی نے شام کے خلاف ممکنہ امریکی کارروائی کو پورے خطے کےلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ شام کے ازلی دشمن اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہ ا کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کےلئے تیار ہیں۔ اسرائیلی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دوسری جاننب شامی صدر بشارالاسد ایک چٹان کی صورت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ ابھی تک وہ دشمنوں کی عددی برتری فوجی قوت یا دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوا ہے۔ اس نے کہا ہے وہ شام پر غیر ملکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہے۔ شامی صدر کے بیٹے حافظ اسد نے کہا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو شام امریکیوں کےلئے قبرستان بن جائے گا۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے اس پہلی غلطی کے منتظر ہیں جس کا اختتام نہیں ہو گا۔ امریکہ کے پاس ہو سکتا ہے ہم سے زیادہ بہتر طیارے جنگی جہاز ٹینک اور فوجی سازوسامان ہو مگر اس کے پاس ایسے سپاہی نہیں جیسے شام کے پاس ہیں۔ امریکہ کو شام میں ہر جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آئیے اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ شام پر امریکی حملہ کب ہو سکتا ہے۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا ہے کہ شام سے حاصل کئے گئے نمونوں کے معائنے میں ابھی 3ہفتے لگیں گے۔ یہ ٹیم ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ پہنچ گئی ہے۔ مذکورہ ٹیکنیکل رکاوٹوں کے علاوہ امریکی صدر کو شام پر حملہ کرنے کے سلسلے میں کئی اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے مثلاً امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ترکی ، یمن، اردن اور آسٹریلیا کے کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر امریکی حملے کی مخالفت کی ہے۔ تاہم ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کر کے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس طرح سعودی عرب نے کہا ہے کہ عالمی برادری شام کے خلاف متحد ہو کر کارروائی کرے۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ شامی اپوزیشن کا ساتھ دیں۔ موجودہ دھماکہ خیز صورتحال میں امریکہ برطانیہ اور روس کے کئی بحری جنگی جہاز مشرقی بحرہ روم میں پہنچ گئے ہیں جو کہ میزائلوں سے لیس ہیں۔ تاہم امریکی پارلیمنٹ کے کردار روس کے مضبوط موقف برطانوی حکومت میں گروہ بندی اور عالمی رائے عامہ کی امریکی حملے کی مخالفت کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کو شام پر حملہ کرنے کےلئے ابھی کئی مشکل مقامات سے گزرنا پڑے گا اور اس کے فوائد اور نقصانات کا کئی بار جائزہ لینا پڑے گا۔