طویل ترین کہانی سنانے کا عالمی مقابلہ ہو رہا تھا جس میں دنیابھر سے بڑی تعداد میں افراد نے حصہ لیا۔ جج صاحبان شرکا ءکی کہانیاں سن کر وقت نو ٹ کررہے تھے۔ ایک قصہ گو نے یوںکہانی سنانا شروع کی۔ ایک بزدل حکمران کی سلطنت پر دشمن ملک نے چڑھائی کر دی جس پر بزدل بادشاہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑا دیا‘ وہ اپنی سلطنت سے دور نکل آیا مگر وہ گھوڑا دوڑاتا رہا۔ کتنا ہی وقت گزر گیا مگر قصہ گوکی دگڑ دگڑ ختم نہ ہوئی۔ جج اس سے پوچھتے کہ آگے کیا ہوا مگر وہ دگڑ دگڑ کہتا گیا۔ یہاں تک کہ کئی روز گزر گئے مگرنہ تو گھوڑا رکا اور نہ ہی طویل ترین کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہی حال ہمارے ملک میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کا ہے کہ ایک دھائی سے زیادہ گزرنے کے باوجود نہ تو کسی انجام کو پہنچی اورنہ ہی ختم ہونے کا نام لے رہی ہے۔ 2002 سے آج تک 371 خودکش دھماکوں میں خواتین اور بچوں سمیت 5 ہزار 7 سو 81 افراد ہلاک جبکہ 12 ہزار سے زائدزخمی ہو چکے ہیں۔ دہشت گردقانون نافذ کرنیوالے اداروں میں گھس کر دیدہ دلیری سے جوانوںکو چن چن کرمار رہے ہیں۔ مقتدر حکومتی شخصیات، فوج، پولیس، بےوروکرےسی، سےاستدان حتی کہ عام شہرےوں، عورتوںاور بچوں تک کسی کو بھی نہےں بخشا جا رہا ہے۔ معاملہ ےہاں تک پہنچ چکا ہے کہ دہشت گردوں نے دھمکی دی ہے کہ انکے پکڑے گئے ساتھےوں کو پھانسی دی گئی تو اسے دہشت گردوں کیخلاف اعلان جنگ سمجھا جائیگا کےونکہ دہشت گردوں کو ےقےن ہے کہ وہ اپنے گرفتار ساتھی تو کسی بھی وقت جےلوں پر دھاوا بول کر باآسانی چھڑا سکتے ہےں۔ دنےا بھرمےں وطن عزےزپاکستان کی جگ ہنسائی سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔ اقوام عالم ہم سے خوف ےا پھر ہم پر ترس کھاتی ہےں مگر سوچنے کی بات ےہ ہے کہ ہم اس نہج تک پہنچے کےسے؟ تو افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ ہر ادارے نے اپنا کردادر ادا کرنے کی بجائے کبوتر کی طرح بلی کو دےکھ کر آنکھےں بند کررکھےں۔ سابق وزےر عظم ےوسف رضا گےلانی کا اپنا بےٹا اغواءہوا تو انہےں معلوم پڑا کہ پاکستان مےں دہشت گردی کا عفرےت کس قدر پھےل چکا ہے۔ کوئٹہ مےں پولےس افسران و اہلکاروں کی شہادت کے بعد آئی جی مشتاق سکھےرا کو ےہ حقےقت آشکارا ہوئی کہ امن و امان کی صوتحال کس قدر بگڑ چکی ہے۔ شاےد دہشت گردی کی بھےنٹ چڑھنے والے قوم کے قابل قدر سپوتوں کی جنازوںکو کندھا دے کر وزےراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے جذباتی ہو کر کہہ دےا ہے کہ ہم نے زندہ رہنا ہے تو لڑنا ہوگا۔ ہمارے وزےر اعظم نواز شرےف قوم سے کہتے ہےں کہ وہ ہر روز بچوں کے جنازے نہےں اٹھا سکتے۔ مذاکرات ہوں ےا طاقت کا استعما ل، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ کےا جذباتی نعروں ےادعوو¿ںسے اےسا ممکن ہے ؟ مذاکرات کرےں، ضرور کرےں، مگر صرف اپنوں کے ساتھ۔ انہےں ےہ باور کراےا جائے کہ ےہ اپنا وطن ہے۔ خداراوہ اپنوں کے خون سے ہاتھ مت رنگےں لےکن کسی بےرونی در اندازی کی ہرگزاجازت نہ دی جائے۔ دنےا بھر کے دہشت گردوں نے ہمارے وطن عزےز کو ”اکھاڑا“ بنا لےا ہے۔ جناب حقائق کا سامنا کر ےں۔ ہمےں تو ےہ بھی کلئےر نہےں ہے کہ ےہ جنگ ہماری ہے کہ پرائی۔ ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ ےہ جنگ پرائی ہے ےا اپنی، مگر خون تو اپنا بہہ رہا ہے۔ اس صورتحال پر افسوس اور دعوے بہت ہو چکے۔آخر کب تک؟ ہماری قوم تو اپنے لےڈروں کی طرف پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دےکھتے ہوئے التجا کر رہی ہے کہ آپ اپنے شہرےوں کی حفاظت کیلئے ”کچھ تو “کرےں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی مفادات، سےاسی اختلافات اور جھوٹی انا کو پس پشت ڈال کر سےاستدان، پوری قوم اور ہر ادارہ متحد ہو کر مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے دہشت گردوں کیخلاف سےنہ سپر ہو اور دشمن کے مذموم ارادوں کو خاک مےں ملا دےا جائے۔ جنگل مےں اےک بارہ سنگھا کے پےچھے خونخوار شکاری کتے دوڑ رہے تھے۔ جان بچانے کیلئے بھاگتے بارہ سنگھا کے سےنگ جنگل مےں درختوں کی ٹہنےو ں مےں پھنستے اورجھاڑےوں مےں اسکی پتلی کمزور ٹانگےں زخمی ہوتی رہےں مگر وہ بھاگتا رہا اور آخرکار اس نے شکاری کتوں کو پےچھے چھوڑ دےا اور جنگل مےں غائب ہو گےا۔ کسی نے بارہ سنگھاسے پوچھا کہ کےا ماجرہ ہے کہ شکاری کے سدھائے ہوئے کتے تمھےں دبوچنے کیلئے جنگل مےں تمہارا پےچھا کرتے ہےں تو تم اپنے سےنگوں اور درختوں کی ٹہنےوں کی وجہ سے دوڑنے مےں سخت رکاوٹ اور پتلی ٹانگوں کے باوجود انکو پچھاڑ کر آگے نکل جاتے ہو۔ بارہ سنگھا نے جواب دےا ”کتا مالک کیلئے دوڑتا ہے جبکہ مےں اپنے لئے“ تو جناب ہمےں دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنی سمجھنی ہو گی۔