شہرِ اقبال سیالکوٹ سے خبر آئی ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے سکول کے کلاس روم کی چھت گر گئی ہے۔ شہر کا یہ علاقہ گندم منڈی بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ عظیم اور یادگار تعلیمی درسگاہ بھی خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی ہے جس دن چھت گری وہ چھٹی کا دن تھا۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا مگر تاریخی سکول کا فرنیچر اور پرانا سامان وغیرہ تباہ ہو گیا ہے۔ یہ سکول کوئی ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔ اس کا نام سکاچ مشن ہائی سکول تھا۔ اب گورنمنٹ کرسچین ہائی سکول کے نام سے مشہور ہے مگر اس سکول کی فضیلت اور عظمت اس بات سے ہے کہ یہاں مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک پڑھتے رہے تھے۔ یہ سکول مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ نہ کسی صوبائی حکومت نے اور نہ ڈسٹرکٹ حکومت نے اس کی بہتری کی طرف کوئی توجہ دی ہے۔ دس سال پہلے محکمہ بلڈنگ نے سکول کی عمارت کو خطرناک قرار دیا تھا۔ اب تو وہ عبرتناک منظر پیش کر رہی ہے۔
سکول کی تعمیر نو اور مرمت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب سکول کی چھت گر گئی ہے مگر اس کی بھی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ چار سال پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا تھا۔ اس کو ماڈل سکول بنانے کے لئے ایک منصوبہ بھی تیار کیا گیا تھا جس پر تین کروڑ لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ سردخانے میں پڑا ہوا ہے۔ میں خادم پنجاب کی صلاحیتوں سے باخبر ہوں۔ انہوں نے چند مہینوں کی ریکارڈ مدت میں میٹرو بس کے لئے ایک شاندار سڑک بنا دی جو آدھی سے زیادہ پل پر واقع ہے۔ اس کے نیچے والی سڑک فیروزپور روڈ بھی اچھی ہو گئی ہے۔ اس سڑک کے لئے کئی باتیں ہوئیں اب صرف ایک بات ہے کہ یہ شہباز شریف کا کارنامہ ہے۔ کئی دانش سکول بھی دیکھتے ہی دیکھتے بن گئے۔ اس معرکہ آرائی کو دیکھتے ہوئے شہباز سپیڈ کی اصطلاح بھی وضع کر لی گئی ہے مگر درد دل کے ساتھ گزارش ہے کہ اکثر سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جسے حالت زار کہنا چاہئے۔ نہ فرنیچر نہ ٹیچر۔ پینے کے لئے پانی نہیں۔ رفع حاجت کے لئے ٹھکانہ نہیں۔ کمرے کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو حالت زار کہنا چاہئے۔ حالت زار و قطار کہیں تو زیادہ مناسب ہے مریض زار و قطار روتے ہیں اور ان کی زندگی قطاروں میں کھڑے کھڑے شرمندگی بن جاتی ہے۔ ہسپتال کے عملے کی درندگی دہشت گردی کا روپ دھار لیتی ہے۔ شہباز شریف کے عہد میں تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ عہدے اور عہد میں کوئی فرق نہیں رہا۔ دونوں ناقابل اعتبار ہیں۔
سیالکوٹ کے اس سکول کا نام علامہ اقبال سکول ہونا چاہئے۔ اس میں کرسچین کا لفظ بھی مناسب ہے۔ مسیحی فلاحی تنظیموں نے پاکستان میں تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے بڑا کام کیا ہے۔ اس کا اعتراف ضروری ہے جس کرسچین سکول سے بارہ جماعت پڑھ کر طالب علم علامہ اقبال بن جاتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس میں حضرت علامہ کا عشق رسول اور الہامی رابطوں کے بہت راز ہیں۔
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
علامہ اقبال کے نام سے منسوب بڑی چیزیں پاکستان میں بن گئی ہیں مگر سیالکوٹ کے اس سکول کی طرف کسی کی نگاہ نہیں گئی جہاں سے ابتدائی جماعتیں پڑھ کے نگاہ و دل کے کئی رازوں سے پردہ اقبال نے اٹھایا۔ میں اقبال کی یادوں میں جکڑا ہوا کھڑا ہوں جو زخمی پرندوں کی طرح میرے دل و نگاہ کی ویرانیوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ شہباز شریف نے ایک منصوبے کا اعلان کیا اور کسی نے اسے اس قابل بھی نہ سمجھا کہ کوئی میٹنگ ہی اس حوالے سے ہو۔ مجھے تو افسوس خواجہ آصف پر بھی ہے جو سیالکوٹ کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کبھی اس سکول کو جا کے دیکھا بھی نہ ہو گا۔ اب وہ کچھ کریں ورنہ میں سیالکوٹ پہنچوں گا اور خواجہ صاحب کو پکاروں گا بلکہ للکاروں گا۔ آج کل فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال نے سیالکوٹ جا کے اپنے عظیم والد کی ان جگہوں کو دیکھا ہے جہاں ان کے ہونے کی خوشبو آج بھی بے قرار ہو گی۔ اقبال کے پوتے ولید اقبال بہت زور شور والے جوان ہیں۔ وہ اپنے دادا کی یادگاروں کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہمیں اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین سے کوئی امید نہیں۔ وہ تو عمران خان کی مہمانداری سے فارغ نہیں ہیں۔ عمران کے مطالبات اور ان کے لوازمات کا بہت خیال یوسف صلاح الدین کرتا رہتا ہے۔ میں اشرف ڈار سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سکول میں جائے اور ضروری کارروائی کرے۔
سیالکوٹ کے امیر کبیر تاجروں نے اپنی کاروباری سہولت کے لئے شہر میں ہوائی اڈا بنوا دیا۔ مگر انہیں یاد نہیں رہا کہ اس شہر میں علامہ اقبال بھی رہتے تھے۔ وہ جس گھر میں تھے جس سکول میں پڑھتے تھے وہ اپنی خستہ حالی کا ماتم کرتے ہیں۔ سیالکوٹ کے سرمایہ دار تاجروں کے پاس دولت ہے مگر دل کی دولت نہیں ہے۔ درد کی دولت تو بالکل نہیں ہے۔ ان کے لئے میں احتجاج کس سے کروں۔ انہیں اس شہر میں رہنے کا حق نہیں ہے اور یہاں دولت کے انبار اکٹھے کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔ ان میں سے ہر آدمی چند ہزار کا چندہ دے تو کروڑوں روپے اکٹھے ہو جائیں گے۔ وہ بے شمار دولت کہاں لے جائیں گے۔ ان کی قبر پر جو کتبہ لگے گا کیا وہ اربوں روپے کا ہو گا۔ انہوں نے کبھی اقبال کی شاعری نہ پڑھی ہو گی۔ ایڈووکیٹ دوست نوائے وقت کے کالم نگار دانشور آصف بھلی اپنے امیروں کبیروں کو سمجھائیں کہ یہ خبر سیالکوٹ شہر کے لئے ایسی بدنامی ہے کہ اس سے بڑی ناکامی کوئی نہیں ہے۔ میں سیالکوٹ کئی دفعہ گیا ہوں اور میں نے محسوس کیا کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔ امیر کبیر ہیں مگر بے ضمیر نہیں ہیں۔ میری خواہش ہے کہ علامہ اقبال کی یادوں میں روتا ہوا سکول اور دوسری جگہیں بہترین مقامات بن جائیں۔ اس میں یہ خیال رہے کہ علامہ اقبال کے نقوش زندہ رہیں۔ کسی سرکاری امداد کا انتظار نہ کیا جائے کہ پھر فطرت انتظار کی طاقت آدمی سے چھین لیتی ہے۔ دنیا والے اپنے بڑوں کی ایک ایک چیز کو اتنا سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں کہ دیکھنے والے بھی فخر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
شہرِ اقبال سیالکوٹ کیلئے آنسوﺅں کی بمباری
Sep 05, 2013