نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کیس: اخراجات میں اربوں کا اضافہ ہوا‘ نہ جانے جہاز کب اڑے گا: سپریم کورٹ

اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے نیو اسلام آباد ائرپورٹ منصوبے میں تاخیر کے حوالے سے کیس کی سماعت آج تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے وکلاءکو دلائل مکمل کر نے کی ہدایت کردی۔ بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبے میں تاخیر کے ذمہ داران کا تعین کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ منصوبے کی لاگت 35 ارب سے 75 ارب پر پہنچ گئی جو کہ 95 ارب سے بھی تجاوز کرجائیگی تاہم نہ تو انکوائری رپورٹ پر عملدرآمد کیا گیا نہ ہی کوئی کیس ایف آئی اے کو بھیجا گیا۔ کسی کو نہیں پتا کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ مکمل ہونے کی ”شبھ“ گھڑی کب آئیگی۔ نئے جائنٹ وینچر کی تشکیل کے وقت پری کوالیفکیشن رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اگر ڈی جی سول ایوی ایشن تقرری معاملے میں شفافیت برتی جاتی تو عدالت کو ”مغز ماری“ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ معاملہ عدالت میں آنے کے بعد حکومت کو ہوش آیا۔ پراجیکٹ کی تاخیر میں اتنے زیادہ لوگ ملوث ہیں معاملہ اب تک ایف آئی اے کو بھیج دینا چاہئے تھا۔ سول ایوی ایشن کو شاہد نیاز رپورٹ سامنے آئے کے بعد ذمہ داران کا تعین کرنا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا بڑا ائرپورٹ بننا تھا۔ ملک میں دہشت گردی اور دیگر مسائل ہیں۔ پراجیکٹ کی لاگت 35 ارب سے بڑھ کر 75ارب روپے ہوگئی۔ کنسلٹنٹ سے یہ پتہ کرنا چاہئے تھا کہ پراجیکٹ میں کیوں تاخیر ہو رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جس کی جو ذمہ داری بنتی تھی اس نے پوری نہیں کی۔ مجاز اتھارٹی نے اپنا کام تو کرنا نہیں ہوتا۔ اگر مجاز اتھارٹی اپنی ذمہ داری پوری کرے تو معاملات ایف آئی اے کو بھیجنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ ملتان ائرپورٹ بھی ابھی تک بن رہا ہے یا نہیں، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ ملتان ائرپورٹ کا منصوبہ مکمل ہونے کے قریب ہے۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملتان ائرپورٹ سے زیادہ نیو اسلام آباد ائرپورٹ کا منصوبہ اہم ہے۔ یہ بین الاقوامی ائرپورٹ ہے ابھی تک وہاں پہنچنے کیلئے سڑک کچی ہے۔ چین اور دیگر ممالک کے صدور وہاں سے کیسے آئیں گے؟ کیا ان کو ہلکان کرتے ہوئے وہاں پہنچایا جائیگا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ رن وے کے درمیان 1030فٹ کا فاصلہ ہونا چاہئے جو کہ نہیں رکھا گیا۔ کون سی وہ ”شبھ“ گھڑی ہوگی جب نئے ائرپورٹ پر جہاز لینڈ کریں گے، آمدورفت جاری ہو گی، یہ کوئی بھی نہیں بتا رہا۔ کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ کیا کرنا ہے۔ ”لیگن“ کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے اپنے ذمے کا 96 فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ انکوائری کمیٹی کو جے وی توڑنے اور ختم کر نے کا نوٹیفکیشن تک نہیں دیا گیا۔ سول ایوی ایشن نے عام ٹیکسی رن وے کو ایمرجنسی رن وے میں تبدیل کر دیا جس سے لاگت میں اضافہ ہوا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فائدہ تو ٹھیکیدار کا ہوا اور نقصان حکومتی خزانے کو برداشت کرنا پڑا۔ اربوں روپے اضافی اخراجات حکومت کے کھاتے میں گئے یہ سارا پیسہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس رن وے اور ایمرجنسی رن وے کے درمیان ٹیکنیکل پوائنٹ کے مطابق فاصلہ نہیں رکھا گیا جس کے باعث پائلٹ کو جہاز اتارتے وقت اصل رن وے اورایمرجنسی رن وے پہنچانے میں دشواری پیش آئیگی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بدنیتی ہے یا مہارت کی کمی کہ کسی معاملے پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ رن وے کے درمیان فاصلہ سول ایوی ایشن قوانین کے مطابق نہ رکھنے سے جہازوں کا ایک دوسرے سے ٹکرانے کا خطرہ ہو گا۔ رن وے کے تعمیری نقشے میں تبدیلی سے 1.5ارب روپے اضافی لاگت آئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پری کوالیفکیشن کے بغیر سپروائزری کنٹریکٹ کمپنی نے اپنے پارٹنر ساتھ رکھے جنہیں ایئرپورٹ بنانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ 

ای پیپر دی نیشن