لاہور۔لندن۔ کب بنے گا؟

لاہور۔لندن۔ کب بنے گا؟

مرزا غالب کے ایک دوست کا رنگ کالا تھا جن کے مرزا صاحب کچھ دنوں تک مہمان رہے اور دوسرے دوست کو بتا رہے تھے کہ ....”میں پہلے”گورے“ (انگریز) کی قید میں تھا اور اب کالے کی قید میں ہوں“۔ شاعر نے کہا تھا....
”مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے؟ کیا رہائی ہے ؟“
ہم تقریباً تین سو سال تک انگریزوں کے غلام رہے۔ جلد آزاد اس لئے نہیں ہوسکے تھے کہ ہمیں غلامی کی عادت پڑ گئی تھی۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا تو علامہ اقبالؒ نے ہمیں یہ احساس دلایا اور میرِ کارواں(قائداعظمؒ) کا انتخاب بھی کردیا۔قائداعظمؒ ہمیں ہماری منزل تک پہنچا کر خالقِ حقیقی سے جاملے، وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد ہر دور میں ہمارے سیاستدان ” ملک اور قوم کے مفاد میں “ اکثر فیصلے لندن میں ہی کرتے ہیں۔ ”لندن پلان“ ....”میثاق جمہوریت“ اور اس طرح کے کئی پلان اور میثاق لندن میں ہی ہوئے ۔لندن دنیا بھر کے معزول، جلا وطن اوربرسر اقتدار حکمرانوں کیلئے، دیدہ و دل فرش راہ کئے رکھتا ہے.... بقول فیض صاحب....
”جو آئے ،آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں“
شیکسپئر نے اپنی نظم”LONDON“ میں کہا تھا۔
”TO BE IN LONDON, IS A BLESS“یعنی لندن میں زندہ رہنا یا موجود ہونا ....کامل مسرت.... روحانی سکون.... سرور.... یا....عالم بالا میں ہونے کی کیفیت ہے ....اہل لاہور بھی لاہور سے متعلق پُر عظمت جذبات رکھتے ہیں،جب کہتے ہیں کہ .... ” جہنے لہور نئیں دیکھیا، اور جمیّا ای نئیں“.... ہمارے سادات.... اپنے بزرگوںکے شہروں.... ”مشہد.... بخارا.... ترمذ.... اور شیراز.... کی نسبت ہے .... مشہدی.... بخاری.... ترمذی .... اور شیرازی کہتے ہیں.... دہلوی.... لکھنوی.... امرتسری.... اور جالندھری.... کہلانے والے دوست بھی اپنے بزرگوں کے شہروں سے ،محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے کئی قومی، سیاسی راہنماﺅں نے لندن میں تعلیم حاصل کی اور یہاں رہ کر عالمی جمہوری تحریکوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا اور اسی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے،آزادی اور قیامِ پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنایا۔
برطانیہ میں آئینی بادشاہت بھی وہاں کے لوگوں کی امن اور مفاہمت کی پالیسی کا مظہر ہے اور”COMMON WEALTH“۔(دولتِ مشترکہ) کے منتخب....یا.... غیر.... منتخب حکمرانوں کو.... ملکہ معظمہ کے برابر کرسی پر بٹھانا بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔ برطانوی آئین غیر تحریری ہے، لیکن ہمارا آئین اور مارشل لائی قوانین.... تحریری ہوتے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ برطانوی پارلیمنٹ نے اپنے آئین میں کوئی ترمیم کی ہے یا نہیں؟....لیکن ہمارے ہر آئین (اور مارشل لائی قوانین).... میں ترامیم ہوتی رہیں۔ جنرل ضیا الحق صاحب کا تو یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ” آئین کیا ہے؟ چند صفحات کی کتاب جسے مَیں جب چاہوں، پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں“۔
ہر برطانوی حکومت، اپنے سابق غلاموں اور اُن کی اولاد کو نئے سرے سے، اپنی غلامی میں لینے کیلئے، فراخدلی سے کام لیتی ہے۔ میر تقی میر بھی اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے تھے جس کے سبب موصوف بیمار ہوئے تھے۔ ملکہ الزبتھ دوم.... بیک وقت.... برطانیہ اور کینیڈا کی ملکہ ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ہمارے دو معروف سیاستدانوں، جناب الطاف حسین اور علامہ طاہر القادری نے پہلے ملکہ ملکہ¿ معظمہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا، یعنی....” ہم حلف“.... بن گئے اور پھر منہ بولے بھائی چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کرکے جہاں 16لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا تھا وہاں لاکھوں کتابو ں کو بھی دریائے دجلہ میں بہادیا تھا۔برطانوی لوگ علم پرور ہیں۔انہوں نے متحدہ ہندوستان کی حکومت چھوڑنے سے پہلے ہی ہندوستان کی ہر قوم کی کتابوں، قلمی نسخوں اور دیگر قیمتی دستاویزات، لندن میں انڈیا آفس لائبریری بنا کر وہاں محفوظ کرلی تھیں....” صدائے عام ہے یار ان نکتہ داںکےلئے“.... کے مصداق(مناسب معاوضہ دے کر) کوئی بھی شخص اُن کی فوٹو کاپیاں کراسکتا ہے۔
برطانوی معاشرے میں ہر قسم کی بد اخلاقی موجود ہے لیکن کوئی بھی اخلاق باختہ سیاستدان اقتدار میں نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کوئی اپنا ذاتی کاروبار کرسکتا ہے۔ اُسے کسی بھی مقدمے میں ”استثنائ“ حاصل نہیں ہے جس طرح خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی اپنے لئے ”استثنائ“ حاصل نہیں کیا تھا۔ برطانیہ فلاحی مملکت ہے جسے( خلیفہ¿ اسلام دوم) حضرت عمرؓ کا نظام کہا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ.... اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کے سربراہ تھے۔قائداعظمؒ کا نصب العین بھی یہی تھا۔
بعض دوسرے یورپی ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں دس ،دس اور پندرہ، پندرہ سال تک نہیں بڑھنے دی جاتیں اور نہ ہی کرسمس، ایسٹر اور دوسرے تہواروں سے پہلے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ قیام پاکستان کی ایک وجہ بھی بیان کی گئی تھی کہ” ہندو بنیا(تاجر)....مسلمانوں کو لُوٹ رہا ہے“ لیکن اب حاجی اور نمازی مسلمان بنیا اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹ رہا ہے۔ ہمارے مذہبی، سیاسی رہنما حقوق اللہ پر زور دیتے ہیں، حقوق العباد کی بات نہیں کرتے۔ کیا ہماری نئی نسل کو لندن سے روشنی ملے گی؟
زیادہ تر مذہبی، سیاسی راہنما عوام کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ”پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا “لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اُن کے اکابرین نے دو قومی نظریہ کے علمبرداروں سر سید احمد خان، علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے کیوں دئیے تھے ؟ اور انگریزی زبان کو کافروں کی زبان کیوں قرار دیا تھا۔رسول کریم نے تو صحابہ¿ کرامؓ کو ہر قوم کی زبان سیکھنے کی تلقین کی تھی۔ جب آپ نے کہا تھا کہ ”علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے؟“کیا اُن دنوںچین کے تعلیمی اداروں میں عربی زبان پڑھائی جاتی تھی؟ جی نہیں! اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہوچکا تھا اور لکڑی کے ”BLOCKS“ سے ٹھپا لگا کرکتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں۔محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگر انگریزی اور جرمن زبان میں مہارت حاصل نہ کرتے تو پاکستان ایٹمی قوت کیسے بنتا؟
 لندن علوم و فنون کا گہوارہ ہے دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے طالبان علم کی طرح پاکستان کے ذہین ترین لوگوں نے بھی ان علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔لا تعداد لوگ وطن واپس آکر اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور متمول لوگ سرمایہ کاری کرکے وطن عزیز میں ترقی اور خوشحالی کا سورج بھی طلوع کرنے کیلئے پُرعزم ہیں لیکن جب تک پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا، محب وطن اوورسیز پاکستانیوں کا عزم کیسے عملی شکل اختیار کرے گا؟ میں جب بھی لندن آتا ہوں تو احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لاہور کب لندن بنے گا؟ میری لاہور سے مراد پاکستان کا ہر شہر ہے۔لاہور کا نام تو مَیں نے علامت کے طورپر لیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...