بنتے، بگڑتے امکانات؟

اسلام آباد کے سیاسی ماحول میں بنتے بگڑتے امکانات تقریباً آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ حالات کسی حد تک ہموار سطح تک آ پہنچے ہیں۔ درجہ حرارت میں اعتدال آیا ہے۔ ’’معاملات‘‘ کو اس حد تک لانے میں بالآخر انہی قوتوں کو اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرنا پڑا۔ جن سے اول اول پہلو تہی کا تاثر دیا جاتا رہا۔ شروع میں طاہر القادری اور عمران خان کے ہیت مقتدرہ سے درپردہ ’’روابط‘‘ کا شہدہ رہا۔ غیر جانب دار حلقوں کی طرف سے ظاہر کئے گئے تحفظات کے باوجود حکومتی ترجمان اور انکے ہم نوا یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئے کہ ان مرد و حضرات کے دھرنوں کو فیصلہ کار قوتوں کی ’’رہنمائی‘‘ حاصل ہے۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ یہی عمل خود حکومت نے ’’برسر عام‘‘ سر انجام دے دیا۔ جب اس نے فوج کو مصالحت کنندہ، سہولت کار اور ایمپائر کا کردار ادا کرنے کی درخواست دے ڈالی۔ یعنی جس مبینہ عمل کے حوالے سے طاہر القادری اور عمران خان نشانہ تنقید بنے ہوئے تھے۔ وہی عمل حکمرانوں نے پوری خوش دلی سے دھرا دیا۔ ہر چند کہ عوامی اور سیاسی ردعمل سے بچنے کیلئے حکومت نے دفاعی طرز عمل اختیار کیا تاہم فوج کے ترجمان نے پردہ چاک کر دیا سیاست کا کھیل ہی بڑا ظالمانہ ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے بلکہ ٹھکانے لگانے پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ ’’باغی‘‘ جاوید ہاشمی نے عمران خان کی عین اس وقت ٹانگ کھینچی جب وہ ’’پائوں‘‘ ٹھکانے کیلئے ’’جگہ‘‘ تلاش کر رہے تھے ہر چند دھرنا دینے والوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور ریڈ زون سے آگے جانے کا غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا تاہم اس عمل کو کسی ’’پیغام رسائی‘‘ کا نتیجہ قرار دینا تشکیک آمیز ٹھہرایا گیا۔ جاوید ہاشمی دیانت دار اور اکل کھرے نظریاتی سیاسی کارکن مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے تیئں جو بھی بات کرتے ہیں پوری سچائی اور ایمان داری سے کرتے ہیں تاہم عین اس موقع پر ان کے اس اچانک اور غیر متوقع اقدام کو تحسین آمیز نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ کیونکہ یہ ’’آدھا سچ‘‘ ہے۔ پورا سچ یہ تھا کہ بقول انکے جب انہیں عمران خان کے فوج سے مبینہ ملغوف روابط کا قبل از وقت علم ہو گیا تھا تو انہوں نے اس بات سے اپنی ’’بغاوت‘‘ کا اظہار بروقت کیوں نہیں کیا اور وہ پارٹی سے اسی وقت علیحدہ کیوں نہیں ہو گئے۔ اصل میں سیاسی پارٹیوں میں دیانت دار اور کھرے نظریاتی کارکنوں کا کل اثاثہ محض انکی عزت نفس اور کسی حد تک ’’انا‘‘ ہوتی ہے لہذا جب جب اسکو ٹھیس پہنچتی یا پہنچائی جاتی ہے تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور نتیجہ کسی بھی بڑی یا چھوٹی بات پر پھٹ پڑتے ہیں غالبا یہی کچھ جاوید ہاشمی کیساتھ ہوا دوسری جانب عمران خان ’’جو نیا‘‘ پاکستان بنانے کا داعی ہے۔ اگر وہ اپنے جاگیر دار اور سرمایہ دار ساتھیوں کے زیر اثر جاوید ہاشمی کی عزت نفس کو بحال نہیں رکھ سکا تو اپنے اس مجوزہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں کروڑوں افراد کی عزت نفس کو کیسے بچا پائے گا کیونکہ جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقہ اپنی بقاء کی جنگ میں عوام کی عزت نفس کیا عملا عوام ہی کو کچل دینے سے دریغ نہیں کرتا۔ ویسے ایک طرف عمران خان اور طاہر القادری کا ریڈ زون سے آگے جانے کا فیصلہ اگر غیر دانش مندانہ اور اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے تو دوسری طرف حکومت نے بچوں خواتین اور ضعیف العمر افراد پر وحشیانہ اور ظالمانہ تشدد کر کے اپنی بادشاہانہ ’’روایت‘‘ کی پاسداری کی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی تاریخ دہرائی گئی اور 3 مظاہرین کو شہید کرنے کیساتھ ساتھ درجنوں افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ حکمرانوں اور انکے پروردہ ’’اداروں‘‘ کو بالآخر اس ظلم وستم اور جبرواستبداد کا حساب دینا ہی پڑیگا۔ کہ بے گناہ اور نہتے مقتولین کا خون کبھی خشک نہیں ہوتا۔ سردست بگڑتے ہوئے ان معاملات کو مزید بگاڑ سے بچانے اور اقتدار کو ’’محفوظ‘‘ رکھنے کے اس ظالمانہ اور وحشیانہ کھیل کے ’’فریقین‘‘ کو ’’برابر برابر‘‘ چھڑوا دینا چاہتے اس لئے کہ اب اس مرحلے پر اگر کسی کی جیت اور کسی کی ہار کا ’’اعلان‘‘ کیا گیا تو جیتنے والے کی ’’جیت‘‘ کو تسلیم نہیں کیا جائیگا اور ہارنے والا اپنی ’’ہار‘‘ نہیں مانے گا۔ مزید براں یہ کہ مذکورہ میچ ’’فکس‘‘ ہوتا دکھائی دے رہا ہے لہذا اسکے نتیجے‘‘ کو نہ تو ’’شائقین‘‘ ہی تسلیم کریگے اور نہ ہی میدان سے باہر براجمان ’’تھرڈ ایمپائرز‘‘ اب یہ امتحان ہے محض ’’ریفری‘‘ کی ذہانت کا کہ وہ بذات خود ’’سب کچھ‘‘ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے۔ اور دیکھ رہا ہے ویسے بھی اسلام آباد کے سیاسی ماحول میں بنتے بگڑتے امکانات تقریباً آخری مرحلے میں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن