اسلام آباد (نامہ نگار+ وقائع نگار + نیوز ایجنسیاں) پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کو سخت سزا دینے کیلئے ایوان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے، یہ تجویز حکومت کی طرف سے احسن اقبال نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دی۔ سینیٹر رضا ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ متحد ہے لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ پارلیمنٹ کی فتح ہوئی ہے، ایک جزوی فتح پارلیمان کی ضرور ہو سکتی ہے لیکن ابھی جنگ جاری ہے، اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ پارلیمنٹ پر پہلا اور آخری حملہ ہے تو یہ اسکی غلطی ہوگی، حالیہ بحران اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے اور یہ ریاست پر کنٹرول کی جنگ ہے۔ حکمران جماعت کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ آگے چل کر یہ صورتحال پیدا کی جائے گی کہ جمہوری قوتوں کے اتحاد کو توڑا جائے۔ جب آپ پارلیمنٹ کو بے وقعت کر دیں گے، سینٹ یا قومی اسمبلی میں نہیں آئیں گے تو سازشیں ہوں گی، ان سازشوں کا مقابلہ صرف اور صرف متحد پارلیمان ہی کر سکتا ہے۔ اگر اب سسٹم کو ڈی ریل کیا گیا تو آمریت سے ملکی فیڈریشن کو خطرہ ہوگا، آمریت کسی صورت بھی منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ صورتحال کو پارلیمنٹ کے ذریعے، بات چیت اور سیاسی طریقے سے ہینڈل کیا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ پاکستان کو رولنگ ایلیٹ سے آزاد کروانا ہوگا۔ انہوں نے طاہر القادری کے انقلاب کے نعرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کس قسم کا انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ پارلیمان کے ممبر نہیں بن سکتے انہوں نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، اس انقلاب میں مزدور کسان، تاجر کہاں ہیں، جن لوگوں کیخلاف انقلاب چا ہیئے وہ انکے دائیں بائیں کھڑے ہیں، طاہر القادری بات صرف خورشید شاہ کے حوالے سے کرتے تو شاید ری ایکٹ نہ کرتا لیکن انہوں نے بھٹو شہید کے بارے میں بات کی جنہوں نے1973کا آئین دیا، ہم ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے وہ سوچ لیں، جب کوئی ہماری قیادت پر انگلی اٹھائے گا تو ہمارے جیالوں کی روایت ہے کہ کس سے کس وقت نمٹا جائے۔ رضا ربانی نے اپنے چودہ نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آمریت کو کسی صورت قبول نہ کیا جائے۔ پارلیمنٹ موثر طریقے سے کام کر رہی ہوتی تو کسی کو پارلیمنٹ کو ہاتھ لگانے کی جرأت بھی نہ ہوتی لیکن آج لوگ لاتعلق ہیں ہمیں اپنے اندر بھی درستگی لانا ہو گی، جب ہمارے وزراء جی ایچ کیو میں جا کر ملتے ہیں اور سہولت کار کی بات ہوتی ہے تو سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کو سخت سزا دینے کیلئے ایوان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے، کنٹینروں میں بند دو لیڈروں نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے، انکے فرمودات سنیں تو یہی لگتا ہے کہ باقی سب چور ہیں یہی دو فرشتے ہیں، آئین و جمہوریت کی جنگ میں پیچھے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دھاندلی دھاندلی کا رونا رونے والے ایک حلقے میں بھی ثابت نہیں کر سکے اگر ہے تو پولنگ ریکارڈ لائیں۔ ماضی میں کسی کو جسارت نہیں ہوئی کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرے، پی ٹی وی پر قبضہ کر کے 40 منٹ تک نشریات بند کر کے دنیا کو کیا پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی ریاست غیر فعال ہو چکی ہے، کنٹینر انقلاب کس طرح کا ہے کہ دو لیڈر باہر نکل کر جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں۔ خورشید شاہ بارے تقریر کی مذمت کرتے ہیں، چوہدری برادران، شیخ رشید، عمران خان اور طاہر القادری کا اتحاد بنا ہے جنکی سیاست کے مناظر پوری قوم دیکھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں وزیر اعظم کیساتھ ہیں اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے متحد ہیں۔ اس موقع پر احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان دھرنے کے شرکا سے بھیک مانگنے کی بجائے حکومت سے صلح کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طاہر القادری اردو میڈیم میں دھمکیاں دیتے ہیں جبکہ انگلش میڈیم میں امن اور صلح کی بات کرتے ہیں۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ 100 سال بھی دھرنا دے کر جمہوریت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ مشترکہ اجلاس تاریخی موقع پر ہو رہا ہے جسکے نتائج مثبت آ رہے ہیں، پاکستان خود جمہوری عمل کا نتیجہ ہے، ہم مودی سے بات کر سکتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کے باہر موجود لوگوں سے بات کیوں نہیں کر سکتے، انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ سیاست دانوں نے خود فیصلے کئے ہیں، مظاہروں نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ پارلیمنٹ کو اہمیت دی جائے، سپیکر سے درخواست ہے کہ تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کئے جائیں۔ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کوئی جنرل نہیں آ رہا نہ ہی کوئی مارشل لا لگ رہا ہے۔ حکمرانوں کو طرز حکمرانی تبدیل کرنا ہوگا اب حکومتیں بنانے کے لئے کام کرنا پڑیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر حاجی عدیل نے کہا ہے کہ عمران خان کو ایسے مطالبات کرنے چاہئیں تھے جو تسلیم کرنے کے قابل ہوتے، طاہر القادری کی باتیں فرضی ہیں، وہ مبالغہ آرائی کے استاد ہیں، سپریم کورٹ کے کہنے کے باوجود دھرنے والے پارلیمنٹ ہائوس کے لان سے نہیں اٹھے، ہم حکومت، آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ آج ہم چور دروازوں سے پارلیمنٹ آتے اور جاتے ہیں، مرکزی دروازے بند ہیں، باہر دہشت گرد کھڑے ہیں جو لوگوں اور گاڑیوں کو چیک کر رہے ہیں، یونیفارم میں پولیس کو چیک کیا جا رہا ہے، دیگوں میں کھانے پکا کر تقسیم کئے جا رہے ہیں، حکومت کا اختیار کہیں نظر نہیں آ رہا۔ حکومت سے استدعا ہے کہ بے شک بات چیت کرے لیکن آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے۔ آج وزیراعظم کو بھی چور دروازوں سے آنا پڑ رہا ہے یہ کیسی جمہوریت ہے۔ جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے سے ملک، معیشت، نظام اور جمہوریت کا نقصان ہو رہا ہے، وزیراعظم کسی کے مطالبے پر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ساجد میر نے کہا کہ یہ دھرنا اور لانگ مارچ ایک بے وقت کا راگ الاپنا ہے ایسے وقت میں جب پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، دھرنے اور مارچوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں اور اس پر مبارکباد کی مستحق ہیں، عمران خان خیبر پی کے میں کارکردگی دکھاتے تو اچھا ہوتا ان کی سیاست اور گفتگو فائول پلے ہے، انہوں نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری نیم سیاسی طالبان ہیں، حکومت نے طالبان کے ساتھ بھی مذکرات کئے ان کے ساتھ بھی کر رہے ہیں لیکن اگر یہ نہ مانے تو پھر ان کے ساتھ بھی سختی سے نمٹنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈنڈا بردار شریعت قبول نہیں کریں گے۔ دھرنا دینے والوں کو کھلی چھٹی دے کر ہمارے ہاتھ باندھ دیئے گئے کہ طاقت کا استعمال نہ کیا جائے، ملک اور اسلام آباد میں حالات کو معمول پر لایا جائے۔ میڈیا والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب عمران خان کے سامنے کرسیاں خالی ہوتی ہیں تو چینل وہ بھی دکھایا کریں۔ این این آئی کے مطابق ارکان کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ طالبان کی طرح سیاسی طالبان کے ساتھ بھی سختی کی جائے۔ اپوزیشن ا رکان کی تقاریر میں حکومت کی طرف سے بروقت مسائل حل نہ کرنے پر بھی کڑی تنقید کی گئی۔آن لائن کے مطابق سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ جنگ جاری ہے،یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اداروں کے درمیان ریاست کے کنٹرول کی جنگ ہے، اگرآئین میں شق58(2b)ختم نہ کی گئی ہوتی تو آج پارلیمنٹ کر گھر بھیج دیا گیا ہوتا، جبکہ حکومت کو ترقی اور ملک کی بہتری کیلئے14 نکات دیتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت کی کل جماعتی کمیٹی تشکیل دیکر نظرثانی کی جائے، ملکی تعلیمی نصاب تبدیل کرنے، تمام معاملات کو پارلیمنٹ میںطے کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ملکی اشرفیہ کی جنگ کو کچھ عرصہ کے لئے بھول کر پنجاب میں سیلابوں پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگر اب صوبائی خود مختاری کو ختم کرنے کی کوشش کی تو تین چھوٹے صوبے ساتھ نہیں دیں گے۔