پاکستان کے لائن آف کنٹرول پر آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں بھارت کو جو ہزیمت اٹھانا اور جس انداز میں اس کے فوجی کمانڈروں نے رن آف کچھ سے فرار میں عافیت سمجھی کانگریسی قیادت نے ضروری سمجھا کہ ورکنگ باﺅنڈری پر نیا محاذ کھول دیا جائے۔ پاکستان کی طرف سے مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر وادی میں بھیجنے کا بہانہ بنا کر 6 ستمبر کی صبح کو بھارتی افواج نے لاہور اور سیالکوٹ پر پوری قوت سے حملہ کر دیا۔ بھارتی جنگی ماہرین کا خیال تھا لاہور اور سیالکوٹ سوفٹ بیلی ہیں اور یہاں انہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ تاہم یہی سوچ ان کے لئے تباہی کا سبب بنی کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ لاہور کے محاذ پر جس طرح میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں رینجرز کے 90 جوانوں نے بھارتی بریگیڈئیر کے حملے کو روکا ہے وہ آج بھی جین بک آف ڈیفنس کے اوراق میں ایک عظیم جنگی معرکے کے طور پر درج ہے۔ یہ وہی حملہ ہے جس کے آغاز پر بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چودھری نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ 6 ستمبر کو لاہور جمخانہ کلب میں وہسکی کا ایک بڑا گلاس چڑھا کر جشن فتح منائیں گے۔ مگر پہلے 9 گھنٹے رینجرز کے ایک یونٹ کے ہاتھوں اور بعد ازاں پاک فوج کے دستوں بی اے ایف کے جہازوں کی بمباری سے بھارتی فوجی یونٹوں کی جو درگت بنی وہ دنیا بھر نے اپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھ لی تھی۔ یوں لاہور پر حملے کے نتیجے میں بھارتی افواج کو اپنے ساتھیوں کی لاشیں کچھ اٹھا کر اور باقی چھوڑ کر سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا۔ واہگہ بارڈر کی دوسری طرف بھارتی فوجیوں کا قبرستان بن گیا۔ دوسری طرف سیالکوٹ کے چونڈہ سیکٹر میں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں جنرل رومیل کی کمانڈ میں لڑی جانے والی ٹینکوں کی جنگ کے بعد دوسرا سب سے بڑا ٹینکوں کا معرکہ تھا جس میں بھارت نے اپنے 425 ٹینک جھونک دیئے تھے جن میں سے شاید کوئی ایک ہی اپنے پہیوں پر چل کر واپس گیا ہو گا۔
6 ستمبر پیر کے روز زندگی معمول کے مطابق تھی۔ لاہور کے شہریوں نے فجر کی نماز ادا کی تھی کہ دشمن نے 4 بجے حملہ کر دیا۔ حملہ آوروں کا بنیادی مقصد لاہور پر جلد از جلد قبضہ کرنا تھا یہی وجہ تھی کہ بھارتی کمانڈروں نے تین اطراف سے بارڈر کراس کیا اور سب سے زیادہ دباﺅ باٹا پور اور بی آر بی لنک کینال پر ڈالا تاکہ لاہور میںداخل ہونے کا راستہ مل سکے۔ بھارتی فوج کی 15 انفنٹری ڈویژن جس کی کمانڈ میجر جنرل نرنجن پرساد کر رہے تھے نے انٹرنیشنل سرحد پار کر کے جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ان دستوں کے ہمراہ روسی ساختہ شرمن ٹینکوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ پاکستان کی طرف سے رینجرز کے جوانوں نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ بے مثال تو ہیں ہی مگر ان کی وجہ سے اس فورس کی عزت و احترام میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پاک آرمی کے دستے لیفٹیننٹ کرنل تجمل حسین ملک کی قیادت میں بی آر بی نہر کی طرف برق رفتاری سے بڑھ رہے تھے بلوچ رجمنٹ کے ان دستوں کے محاذ جنگ کی طرف مارچ کو عوام کے پرجوش ہجوم نے سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑے ہو کر بلند نعروں سے رخصت کیا یہ منظر دیدنی تھا اور جوں یہ خبر ریڈیو اور پی ٹی وی کے ذرائع سے اہل لاہور تک پہنچتی رہی توں توں لوگوں کا ہجوم امڈ آتا رہا اور کالجوںاور پنجاب یونیورسٹی کے طلباءہاتھوں میں ڈنڈے اور ہاکیاں لئے جنگ لڑنے کے لئے واہگہ بارڈر کی طرف چل پڑے جوںجوں یہ ہجوم بڑھتا گیا اردگرد کی آبادیوں سے بھی لوگ لاٹھیاں لیکر ان میں شامل ہوتے گئے۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ فوجی جوانوں نے انہیں باٹا پور سے پہلے روکا کیونکہ دشمن کی شدید بمباری کی وجہ سے خود ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ جنگ کا دائرہ وسیع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے انہیں بمشکل قائل کر کے واپس جانے پر راضی کیا گیا۔ اہل لاہور کے اس جذبے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پی ٹی وی نے اہل لاہور کو زندہ دلان لاہور کا خطاب دیا۔ ذرا سوچیں بھاری توپ خانے کی بمباری اور دشمن کے ٹینکوں کے سامنے ڈنڈے اور لاٹھیوں سے جنگ پر آمادہ عوام کو آپ اور کس نام سے پکار سکتے ہیں۔ دوسرا سب سے مشکل مرحلہ پاک فوج کے لئے یہ تھا کہ وہ لوگ جو سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر تھے وہ بھی جنگ کے آغاز کی خبر سن کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لاہور کی طرف قافلوں میں رواں دواں تھے اور کئی مقامات پر وہ بھارتی حملہ آوروں اور پاک فوج کے درمیان سینڈوچ بن گئے تھے مگر پاکستانی کمانڈروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ان سب کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ اسی دوران بی آر بی نہر پر باٹا پور کے قریب واقع پل پر جو یک رویہ تھا ایک بیل گاڑی جس پر چارہ لدا ہوا تھا وہ گزر رہی تھی کمانڈنگ آفیسر کے حکم پر ایک فوجی دستے نے بیل گاڑی روک کر بیل کو علیحدہ کر کے گڈے کو الٹا کر اس کے پیچھے پوزیشنیں سنبھال لیں کیونکہ بیل گاڑی کے پیچھے تھوڑی دور بھارتی شرمن ٹینک آگے بڑھ رہا تھا چند منٹوں میں ٹینک کے حصے سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔ اس بارے میں کوئی کلام نہیں کہ بی آر بی نہر ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر دفاعی حصار ثابت ہوئی۔ بھارت کے اپنے میزانیے کے مطابق اس کے 486 فوجی واصل جہنم ہوئے جب کہ لاہور کے معرکے میں بلوچ رجمنٹ کے 39 سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
دوسرا سب سے بڑا معرکہ لاہور شہر کے عین اوپر فضاﺅں میں پاکستان ائیر فورس کے شاہینوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ 10 فائٹر جیٹ جہازوں جن میں 6 بھارتی اور چار پاکستان ائیر فورس کے طیارے شامل تھے 10 منٹ تک جنگ کی جسے دفاعی زبان میں ڈاگ فائٹ کہا جاتا ہے۔ یہ معرکہ 20 ستمبر کو لاہور شہر کے باسیوں نے دیکھا اور پورا شہر اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر بو کاٹا اور پاکستان ائیر فورس زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ بار بار سائرن بجا کر شہریوں کو چھتوں سے ہٹنے کے لئے کہا گیا مگر نہ کوئی ڈرتا تھا نہ کوئی بھاگ رہا تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ اور جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ ایسا ہوتا ہے کہ جنگ کے دوران محکمہ پولیس میں ایک سیل قائم کیا جاتا ہے جسے انٹیروگیشن سیل کہتے ہیں اس کا مقصد رات کو گشت کرنا اور دشمن ملک کے جاسوسوں کو پکڑنا ہوتا ہے میرے والد اس وقت ڈی ایس پی تھانہ نولکھا تھے اور رات کو 2 بجے کے قریب ان کے دفتر سے فون آیا کہ انہوں نے ایک بھارتی جاسوس پکڑ لیا ہے جب والد صاحب روانہ ہونے لگے تو میں نے اصرار کیا کہ ساتھ جاﺅں گا اور اپنی عادت کے برعکس مان گئے کیونکہ وہ سرکاری معاملات میں گھر والوں کی کسی قسم کی مداخلت کے خلاف تھے۔ ہم نولکھا تھانے پہنچے تو وہاں لوگوں کا رش تھا ان میں سے کچھ مشتعل تھے اور جاسوس کو دیکھنے پر مضر تھے۔ تھانے کے ایس ایچ او نے جو اس وقت سب انسپکٹر ہوتا تھا والد صاحب کو بتایا کہ وہ شخص تو خدا کو بھی نہیں مانتا اور جب ہم پوچھتے ہیں کہ رسول کو مانتے ہو تو خاموش ہو جاتا ہے قصہ کوتاہ اسے دو سپاہیوں کے ہمراہ میرے والد کے روبرو لایا گیا جب وہ بیٹھ گیا تو ایس ایچ او نے پوچھا تم خدا کو مانتے ہو اس نے برجستہ کہا نہیں۔ دوسرا سوال ہوا تم رسول کو مانتے ہو وہ خاموش ہو گیا۔ والد صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا تم جواب کیوں نہیں دیتے وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوا ”یہ عجیب احمق پولیس افسر ہے جب میں نے کہہ دیا کہ میں رسول کے بھیجنے والے کو نہیں مانتا تو اس کے پیغام کو کیسے مانوں گا۔ تاہم بہت جلد انکشاف ہو گیا کہ وہ ذات شریف معروف شاعر ظہیر کاشمیری تھے جو رات کو دیر گئے کسی محفل سے اٹھ کر اپنی کیفیت میں برانڈرتھ روڈ سے گزر کر گھر جا رہے تھے اور پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ میں نے یہ واقعہ اب اس لئے لکھ دیا ہے کہ کوئی انہیں کچھ بھی کہے وہ تو جواب دینے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔
بات ہو رہی تھی جنگ کے ان 17 دنوں کی جب اہلیان لاہور نے خود کو زندہ دل بھی منوایا اور اپنی افواج کے ساتھ یکجہتی کی تاریخ بھی رقم کی۔ ان دنوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بجنے والے جنگی اور ملی ترانے وہ کمال دکھاتے تھے کہ ایسے لگتا تھا جسم میں خون کی بجائے شرارے بھر دیئے گئے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے انور بہزاد اور شکیل احمد کی آواز میں خبریں جن میں پاکستان کی مسلح افواج کی اعلیٰ کارکردگی کے واقعات انتہائی جوشیلے انداز میں بیان کئے جاتے تھے۔ اسی طرح شام کو اشفاق احمد مرحوم اپنا پروگرام تلقین شاہ پیش کرتے تھے اس دوران لوگ ریڈیو سے چپک کر بیٹھے رہتے تھے۔ اس جنگ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں باقاعدہ افواج نے جرات اور بہادری سے یہ جنگ لڑی اور جیتی وہیں غیر حکومتی اداروں جن میں رضا کار اور سول ڈیفنس کے لوگ شامل تھے نے بھی کمال مہارت سے شہروں کے اندر اور محاذ جنگ کے ساتھ ساتھ خدمات انجام دے کر قوم کے دکھ درد کا مداوا کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جو لائق تحسین ہے۔ غرض یہ کہ ہر طبقہ اور ہر شعبہ سے ماہرین اور افراد نے صدق دل سے قوم کے دفاع میں بھرپور کردار ادا کیا اور ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنے سے 10 گنا بڑے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ مسلح افواج نے قوم کے ساتھ مل کر جہاں دشمن کو آئندہ حملہ نہ کرنے کا پیغام دیا وہیں اپنے ہموطنوں کو بھی یقین دہانی کرائی....
سو جاﺅ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں
بھارت پھر سے جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے مگر کسی بھی پیش رفت سے پہلے اسے 1965ءکی جنگ کا سبق یاد رکھنا چاہیے۔ تب وسائل محدود تھے اب تو ہم بھی ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے کھلونا بم نہیں بنائے اور ہمارا ڈلیوری سسٹم دنیا کے بہترین میں سے ایک ہے۔