امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سمجھنے والے بھارت کو منہ توڑ جواب ہی وقت کی ضرورت ہے
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہنا کا چیلنج قبول کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پاکستان مختصر یا طویل کسی بھی دورانیہ کی جنگ کیلئے تیار ہے۔ گزشتہ روز ریڈیو پاکستان کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے تاہم بھارت کی قیادت پر جنگی جنون سوار رہا تو اسے اسکی بھاری قیمت چکانا پڑیگی۔ بھارتی جنرل دلبیر کے دو روز قبل کے اس بیان پر کہ بھارتی فوجوں کو مختصر جنگوں کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بھارت نے قلیل یا طویل مدت کی جنگ مسلط کی تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دینے کیلئے مکمل تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے 1965ءمیں بھارتی فوج کے عزائم خاک میں ملا دیئے تھے۔ اب وہ زیادہ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ فوج ہے۔ ہماری فوج کئی سال سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مصروف ہے۔ وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا جانتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف امن پر یقین رکھتے ہیں لیکن اگر ملکی مفاد کا مسئلہ درپیش ہوا تو ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
بھارت کی مودی سرکار تو غالباً پاکستان پر نئی جنگ مسلط کرنے کا ایجنڈا لے کر ہی اقتدار میں آئی ہے اس لئے اسکی جانب سے شروع دن سے ہی کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کرکے پاکستان بھارت سرحدوں پر کشیدگی برقرار رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس میں بتدریج شدت پیدا کی جاتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ پوری وادی¿ کشمیر کو مستقل طور پر ہتھیانے کی نیت سے بھارتی آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کی ہئیت تبدیل کرنے کی بھی گھناﺅنی سازش کی گئی اور پاکستان کو یہ پیغام دیا جانے لگا کہ وہ کشمیر کو بھول جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج اور وزیر داخلہ نے بھی یہ تک کہنا شروع کردیا کہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات بھی ہمارے ہیں جو وادی¿ کشمیر کا حصہ ہیں۔ مودی سرکار نے اپنے جنونی عزائم کے تحت جب بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ شروع کیا تو دنیا بھر میں عالمی قیادتوں اور فورموں کی جانب سے اس کا سخت نوٹس لیا گیا جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے دورہ¿ بھارت سے واپسی پر مودی کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ خطے کے امن کی خاطر انتہاءپسندی پر مبنی اپنی سوچ اور پالیسیاں ترک کر دیں۔ اس پیغام کے بعد مودی نے بظاہر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تنازعات طے کرنے کا تاثر دیا جس کیلئے مودی شنگھائی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ملاقات پر مجبور ہوئے تاہم مودی سرکار نے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنیوالی جنونی پالیسیاں برقرار رکھیں۔ بی جے پی حکومت کی پاکستان دشمن پالیسیوں اور اسکے جنونی عزائم کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیر دفاع نے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے یہ درفنطنی چھوڑی تھی کہ بھارتی افواج کو اپنی جنگی صلاحیتیں آزمانے کیلئے کم از کم ایک جنگ ضرور کرنا پڑیگی۔ اس جنگ کے عزائم مودی سرکار پاکستان کیخلاف ہی رکھتی ہے جس کیلئے اس نے پہلے ہی پاکستان بھارت سرحدوں پر محاذ گرم کر رکھا ہے۔ اب بھارتی آرمی چیف نے اپنے وزیر دفاع کی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بڑ ماری ہے کہ بھارتی افواج کو پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیر دفاع اور آرمی چیف کے ان بیانات سے تو پاکستان کی سالمیت کیخلاف مودی سرکار کی ٹپکتی رال کی ہی عکاسی ہوتی ہے مگر اس جنونیت میں انہیں ادراک ہی نہیں ہورہا کہ اس جنگ کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اگر بھارت نے اپنے مقدر کی خرابی سے پاکستان پر جنگ مسلط کی تو یہ جنگ روایتی ہرگز نہیں ہو گی اور اس اعتبار سے محدود جنگ ہی ہو گی کہ خطے کی تباہی کی صورت میں اس کا نتیجہ مہینوں‘ ہفتوں میں نہیں‘ محض چند دنوں میں سامنے آجائیگا‘ بس ایٹمی بٹن دبانے کی دیر ہو گی کہ مودی سرکار کو اسکی جنونیت کا جواب مل جائیگا۔ پھر وہ کس زعم میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے جنونی شوق میں مبتلا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے کہ تمام تر جنگی سازوسامان اور حربی صلاحیتوں سے لیس ہونے کے باوجود گزشتہ 50 سال سے بے کار پڑی پڑی بھارتی افواج کو زنگ لگ چکا ہے اس لئے جنگ شروع ہونے کی صورت میں اس زنگ آلود فوج کے ہاتھوں میں بندوق سنبھالنے اور دوسرا اسلحہ استعمال کرنے کی سکت بھی نہیں ہو گی جبکہ ہماری کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں کا حصار ہمارے ایٹمی بٹن کے پاس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ مودی سرکار مظفرآباد کنٹرول لائن اور سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری کے گردونواح میں شہری آبادیوں اور چیک پوسٹوں پر آئے روز کی فائرنگ اور گولہ باری سے ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور شہریوں کے خون ناحق سے ہاتھ رنگ کر اپنے تئیں یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ اسے باقاعدہ جنگ کی صورت میں بھی پاکستان کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا اور اسی زعم میں بھارتی سول اور عسکری قیادتیں لومڑی کو چڑھی ہوئی کی طرح پونچھ ہلا کر یہ بڑھکیں لگاتی نظر آتی ہیں کہ پاکستان سے ایک جنگ کرنا ہماری ضرورت بن چکا ہے۔ پھر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ بھارت کی مودی سرکار اپنا یہ زعم نکال کر دیکھ لے۔ اس جنگ میں اسے ستمبر 65ءوالی ہزیمتوں سے بھی زیادہ سبکی اٹھانا پڑیگی۔
اس وقت پاکستان ہی نہیں‘ برادر پڑوسی ملک چین بھی بھارتی جارحانہ عزائم کی خبر پا کر اپنی اور پاکستان کی سلامتی کیلئے مستعدو چوکنا ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کے پاس بھی جنگی حربی استعداد اور صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری افواج تو دہشت گردی کی جنگ میں گزشتہ سات سال سے دہشت گردوں سے نبردآزما ہو کر اپنی دفاعی صلاحیتوں اور جنگی حکمت عملی کو آزما بھی رہی ہیں اور اس جنگ میں جس وسیع پیمانے پر ہماری مشاق افواج نے کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ اسکے پیش نظر انکے ساتھ پنجہ آزمائی کی نیت رکھنے والے بھارتی آرمی چیف کو دن میں تارے نظر آجائینگے۔ بے شک امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ کی معاونت سے بھارت نے اپنی افواج کو جدید اور روایتی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس کر دیا ہوا ہے اور اسکی افواج کو پاکستان پر عددی برتری بھی حاصل ہے اسکے باوجود قومی جذبے سے لبریز افواج پاکستان کے سامنے کھڑا ہونا اور انہیں کسی قسم کی ہزیمت سے دوچار کرنا مجذوب کی بڑ ہی قرار پائے گا۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل پیس اینڈ ڈی اسٹیمینیشن سنٹر کی چشم کشا رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں پاکستان اور بھارت کی ایٹمی استعداد کا موازنہ کرتے ہوئے دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان آئندہ پانچ برس تک امریکہ اور روس کے بعد جوہری ذخائر رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائیگا جبکہ اس وقت بھی بھارت کے ایک سو کے مقابلے میں پاکستان کے پاس 120 جوہری ہتھیار موجود ہیں اس لئے جب بھارت کو پاکستان کی ”ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز“ کی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑیگا تو اسے جارحیت تو کجا‘ اپنے دفاع کیلئے کوئی قدم اٹھانا بھی بھول جائیگا۔
بھارتی جنونی عزائم کے پیش نظر اس وقت پوری قوم یکجہت ہو کر 1965ءوالے جذبے سے سرشار ہو چکی ہے۔ اگر بھارت ہماری جانب میلی آنکھ اٹھا کر دیکھے گا یا ہماری سرزمین کی جانب اپنے منحوس اور ناپاک قدم اٹھانے کا سوچے گا تو ایٹمی صلاحیتوں سے مالامال ہماری افواج اور فضائیہ اسے سنبھلنے کی مہلت بھی نہیں دیگی۔ اسے ہماری جانب کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ستمبر 65ءکی جنگ والی اپنی ہزیمتوں کو بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے آج تو جنگی استعداد کے معاملہ میں ہماری افواج اور بھی مضبوط ہیں اور اپنی صلاحیتیں آزما بھی رہی ہیں اس لئے بھارتی سورماﺅں کے گیدڑ بننے تک کا فاصلہ انتہائی محدود ہوگا۔