حکومت پنجاب کی ”سیف بسنت“ کمیٹی

سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیچھے جاکر 1885ءکے لگ بھگ‘ اور پھر اِس 19ویں صدی کے آٹھویں عشرے میں پائی جانے والی لاہور کی فضاءیا معاشرت کو اپنی آنکھوں میں بند کر کے واپس آج 21ویں صدی کے لاہور لوٹ آئیے۔ 1885ءکے لگ بھگ ہمارے شاعر مشرق علامہ محمداقبال کے ہاتھوں لاہور کی فضاءمیں اُڑتی ہوئی پتنگ کا اپنی بند آنکھوں میں تصوراتی نظارہ کر کے ذہنی سکون ملا۔ اُنچی اُڑان بھرتی پتنگ کی اِس بلندی سے اپنی نگاہ و ذہن کو وسعت دیتے شاعر مشرق کے بچپن والے لاہور کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا ہے ؟؟
تخیل میں رنگا رنگ معاشرت، مذہبی رواداری، اختلاف رائے کے آدا ب اور امن کے دیپ جلتے دیکھ کر آپ کوبھی اطمینان ہوا ہوگا ۔ بند آنکھوں کو لیکن اب کھول کر اپنی ہم آج 21ویں صدی کے گھُٹے گھُٹے لاہور پر نظر دوڑائیں تو جھر جھری سی پورے بدن پر دوڑ جاتی ہے۔
بُرا ہو تیز کانچ اور خطرناک کیمیکل سے بنی ہوئی ڈور کا‘ کہ جس کے سبب ہمارے لوگوں کی قیمتی زندگیوں کی طرف بڑھتی ہوئی الارمنگ سچو ایشن کو دیکھ کر 2005میںاِس دھرتی پر منائے جانے والے سینکڑوں سال پُرانے تہوار پر پابندی لگادی گئی۔ بھلا ہو مگر آج پنجاب حکومت کا ‘ کہ لاہور کی وہی رنگا رنگ معاشرت واپس لوٹانے کے لئے بسنت پر جس نے کمیٹی بنا دی ہے۔پیارے بچو ،محترم بزرگوں اور مثبت انداز ِ فکر کے حامل نوجوانوں کو سر علامہ محمد اقبال کے بچپن والا زندہ دلان لاہور واپس لوٹانے کے لئے اِس کمیٹی میں علامہ اقبال کے نواسے بھی پیش پیش ہیں۔ ٹی وی پر چلنے والی ایک خبر کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے سیف بسنت کے حوالے سے جو کمیٹی بنائی‘اُس میں کمشنرل لاہور ، سی سی پی او، ڈی سی او لاہور،یوسف صلاح الدین اور صدر کائیٹ فلائینگ ایسوسی ایشن ندیم وائیں بھی شامل ہوں گے ،کمیٹی سیف بسنت کے حوالے سے سفارشات پیش کرے گی ، حکومت پنجاب نے سید زعیم حیسن قادری کو کنوئنیر مقرر کیا ہے۔ لاہوریوں کو واپس اِن کے پسندیدہ شاعر مشرق کے بچپن کا لاہور لوٹانے کیلئے سر گرم ہونے والے علامہ اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین نے راقم الحروف سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ شروع شروع میں تیز کانچ اور خطرناک کیمیکل ڈور سے بنی ڈور سے انسانی جانوں کو بچانے کے لئے موٹر سائیکل سڑک پہ لانے پر ایک دن پابندی کی تجویز ہے۔ آخر جس کا مستقل حل بھی تلاش کر لیا جائے گا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب اور جنوبی ہندوستان میں بہار کی نشانی کے طور پر لوگوں کی جانب سے اکٹھے ہوکر جو تہوار منانے کی اِس دھرتی پر روایت رہی ہے‘ اُس روایت کو تاریخ کے مطابق سرکاری طورپر منانے کی روایت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ڈالی ۔ مہاراجہ اور ان کی ملکہ بہار کا موسم آتے ہی پیلے رنگ کے کپڑے پہن لیتے اور لاہور میں 10دن کا دربار لگا کر خود بھی پتنگ اُڑایا کرتے تھے۔ پنجابی کیلنڈر کے مطابق یہ تہوار مگھ کے مہینے کے پانچویں دن ‘ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں منائے جانے والا پنچاب کا تہوار ہے‘برصغیر کی تقسیم سے پہلے لاہور ، امرتسر اور قصور بسنت منانے کے روایتی علاقے شمار ہوتے تھے۔
مستقل حل کی تلاش مگر پنجاب حکومت کی جانب سے بسنت کے لئے قائم ہوئی کمیٹی کا ایک اجلاس ہو جانے کے دوران ‘ اِس بات کی بھی کی جاچکی ہے کہ ”انسانی جانوں کو کیسے محفوظ بنایا جائے ، کیمیکل ڈور کے استعمال کو ہر صورت روکنا ہوگا “۔
عمل کرنے کی اگر کوئی صورت دیکھائی دے ‘ اور نوبت عوام کے احساسات کو جانچ کر فیصلہ کرنے کی آجائے ‘ تو کچھ تحقیق پر مبنی تجاویز اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار مثبت عوامی حلقوں کی جانب سے موصول ہوئی آراءدرج ذیل ہیں:©۔
(1)پنجاب حکومت سیف بسنت پر سوچ رہی ہے توگودام میں محفوظ پڑی ہوئیں خطرناک ڈور کی چرخیوں کو جلا ڈالناضروری ہے۔
(2)سپریم کورٹ نے درست پابندی اُن حالات کو دیکھ کر لگائی تھی‘ جب معصوم زندگیاں خطرناک ڈور کے ہاتھوں سڑکوں پر پامال ہو رہی تھیںاور سڑکوں ، گلیو ں ، چوراہوں اور چھتوں پر قیامت بپا تھی اور تیز دھار دھاتی ڈور سے بچوں بڑوں کے گلے کٹ رہے اور بجلی کے تاروں سے چھو کر بڑی تعداد میں انسانی زندگیاں ضائع یا پھر معذور ہو رہی تھیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے لگائی گئی پابندی کا مجموعی طورپرخیر مقدم بھی ہوا تھا کیونکہ انسانی جان کی حفاظت کو سب سے پہلے اولیت حاصل ہے۔ اگر حکومت اپنی گڈ گورننس کا مظاہرہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ زندگیاں نہ بچائی جاسکیں ‘ جس کے لئے ضروری ہے کہ کانچ سے ڈور بنانے کے عمل کو مکمل طور پر روک دیا جائے۔
(3)ایک دفعہ کھلے گراﺅنڈ میں بسنت کر اکے عوامی شعور کو چیک کیا جائے ‘ اِ س اعلان کے ساتھ کہ لوگ کانچ کے استعمال سے بنی ڈورکو استعمال نہیں کریں گے ‘ اور چیکنگ کے لئے پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ ڈور استعمال ہو رہی ہے یا نہیں ۔
(4)سب سے بڑی بات لوگوں میںپہلے سے موجود ‘ مگر سوئے ہوئے شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ کوئی بھی کھیل تماشے تفریح یا تہوار مناتے ہوئے اولیت انسانی جانوں کے تحفظ کو دینی چاہئے۔ اِس کے لئے سول سائٹی کی ڈیوٹی لگادی جائے کہ جو خاص طور پر والدین اور نوجوانوں کواگر بسنت منانی ہے تو اسکے طریقے اور ممکنہ احتیاط اور پابندیوں سے بھی بطور خاص آگاہ کرے اور انہیں اسکا پابند بھی بنائے۔
جب یہ تمام مراحل طے ہوجائیں‘ اوراِن سے جب سے ہم گزر جائیں تو‘ بہار کی نشانی کے طور پر منائے جانے والے تہوار کو مناتے ہوئے ہندوستان کے نصاب میں آج بھی پڑھائے جانے والے ہمارے طوطی ہند حضرت امیر خسرو ؒ کا یہ گیت بھی ہم گنگنائیں گے ‘ وہ گیت جس میں اُنہوں نے بسنت کو خراج عقیدت پیش کیا تھا :۔
آج بسنت منالے سہاگن
آج بسنت منالے
تو کیا سووے نیند کی موسے
سو جاگے تیرے بھاگ ، سہاگن
نینوں سے نیناں ملالے
سہاگن ، آج بسنت ملالے

ای پیپر دی نیشن