بیجنگ (ایجنسیاں+ نیٹ نیوز+ رائٹر+ اے ایف پی) چین نے شاہراہ ریشم کی معاشی پٹی کے ساتھ وابستہ ممالک کے عوام کی خوشحالی، اقتصادی فلاح و بہبود کیلئے جی20- کانفرنس کو ترقی کی مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کی شکل دیدی ہے، اس منصوبے کا مقصد تمام ممالک کو ترقی اور خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہے، چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے اور میری ٹائم سلک روڈ کی ایک ساتھ تعمیر میں اہم پیشرفت ہورہی ہے، چینی قیادت میں قائم ہونیوالا ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک بھی خطے کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں فعال کردار ادا کررہا ہے۔ یہ بات چینی صدر شی جن پنگ نے ہانگ زو میں جی20- کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ چینی اصلاحات نے بڑے عمل کا دروازہ کھول دیا ہے۔ انہوں نے جی 20-کانفرنس کے ممالک کی ترقی کیلئے چینی اصلاحات کی روشنی میں چار نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ دریافت کا عمل ہے، دنیا کی تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ 1.3ارب آبادی کے کسی ملک نے جدیدیت کو اپنانے کا احساس کیا ہو، یہ عمل اور جدوجہد کی علامت ہے کیونکہ چین نے معاشی ترقی کا عزم کررکھا ہے۔ یہ مشترکہ اور مساوی خوشحالی کا عمل ہے جس کو عوام کیلئے عوام کے ذریعے اور عوام ہی انجام دے رہے ہیں، یہی چینی اصلاحات کا بنیادی مقصد ہے۔ پروگرام کا آخری نقطہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے دنیا چین کی طرف اور چین دنیا کی طرف دیکھ رہا ہے، چینی اصلاحات نے معاشی اور سماجی ترقی کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں، اس نے اس سلسلے میں نئے نئے طریقے اختیار کئے ہیں۔ چین نے اپنی اصلاحات کے مقاصد طے کر لئے ہیں، وہ ان سے پیچھے نہیں ہٹے گا، جی20- کانفرنس مرض کی تشخیص کر کے اس کا علاج کرنا چاہتی ہے۔ چینی صدر نے جی ٹونٹی کانفرنس کے موقع پر کھوکھلے مذاکرات کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے گریز کیا جائے۔ موجودہ چیلنجوں کے سامنے ہمیں کھلے پن کی عالمی معیشت کی تشکیل دینی چاہئے، تجارت اور سرمایہ کاری کی آزادی اور سہولتوںکو فروغ دینا چاہئے۔ جی ٹونٹی ممالک کو نئی تحفظ پسندی سے گریز کے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے تجارتی اضافے کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اختیار کرنے چاہئیں۔ جی ٹونٹی ممالک کو مزید ملکر اقتصادی پالیسی اختیار کرنی چاہئے، پالیسی کی ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہئے۔ عالمی مالیات اور کرنسی کا نظام بہتر بنانا ضروری ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی سلامتی کے نیٹ ورک کو بہتر بنایا جانا چاہئے۔ 2030ء کے لیے پائیدار ترقی کے ایجنڈا کے لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔ چینی صدر نے جی ٹونٹی کی ترقی کے لیے چار تجاویز پیش کیں جن میں کہا گیا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے رہنما کردار ادا کیا جائے، حقیقت پسندانہ عمل کیا جائے، تعاون کا پلیٹ فارم بنایا جائے اور شراکت داری کے جذبات کو بروئے کار لایا جائے۔ جی 20ممالک تجارت، سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے مل کر کام کریں۔ عالمی معیشت بحال ہورہی ہے لیکن اسے غیر مناسب پیداواری رفتار، مانگ کے فقدان، مالیاتی منڈیوں میں بار بار ہوشربائی اور سست بین الاقوامی تجارت و سرمایہ کاری جیسے چیلنجوں اور متعدد خطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے آٹھ سال بعد بھی عالمی معیشت ایک مرتبہ پھر نازک مرحلے پر ہے۔ ٹیکنالوجیکل عمل کی گذشتہ لہر کی بدولت حاصل کی جانیوالی پیداواری رفتار رائیگاں جاری ہے۔ چینی نے برکس ممالک پر زوردیا کہ انہیں اقتصادی مارکیٹ میں شامل ہونے کے لئے تعاون کو فروغ دینا چاہئے، عالمی معیشت میں بہتری کے باوجود بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اقتصادی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ بامقصد بات کی جائے۔ برکس ممالک کے درمیان اس سال تعاون میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ان میں اپنی ترقی کی اہلیت کو وسیع کرنے کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بات برکس ممالک سربراہوں کے ساتھ ایک اجلاس میں کہی۔ چینی صدر نے کہا کہ برکس ممالک جی20- کے اہم رکن ہیں، انہیں اپنے آپ کو آگے لانے کے لئے تعاون کو مضبوط بنانا ہو گا، برکس ممالک کو پائیدار ترقی کو برقرارکھنے کے لئے برکس اور جی20- کا پلیٹ فارم کو مضبوط بنانا ہو گا۔ برکس ممالک کو عالمی سطح پر حکمرانی کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنا ہونگی، جی20- کے فریم ورک میں رہ کر آپس میں رابطے اور تعاون کو فروغ دینا ہو گا، انہیں اپنے درمیان تجارتی نظام کو بھی محفوظ بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے، کھلی بین الاقوامی معیشت کو مشترکہ طورپر کامیاب بنانا چاہئے۔ انہیں ہر قسم کی تنہائی کی مخالفت کرنی چاہئے، تمام ممالک کو ترقی مواقع اور قوانین کے مساوی حقوق دینا چاہئیں۔ چینی صدر سے مصرکے صدر عبدالفتح السیسی نے بھی ملاقات کی، دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اتفاق کیا۔ چینی صدر نے آسٹریلیا کے وزیراعظم ملکولم ٹرن بل سے ملاقات کی جس میں عملی تعاون اور عوامی رابطے کو فروغ دینے پر بات چیت کی۔ امریکی صدر اوباما سے ملاقات میں چینی صدر نے کہا کہ وہ جمہوریہ کوریا میں میزائل شکن امریکی نظام (تھاڈ) کی تنصیب کی مخالفت کرتا ہے، چین کورین جزائر کی سلامتی، امن اور استحکام کیلئے خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ مسائل کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکے، فریقین کو کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہنا چاہئے جو خطے میں کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے اور سب کو مل کر ایسی مثبت کوششیں کرنی چاہئیں جس سے صورتحال صحیح راستے پر آ جائے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ جنوبی بحیرہ چین کے بارے میں دوہرا معیار ترک کر دے اور تعمیری کردار ادا کرے، امریکہ نے اب تک اقوام متحدہ کے کنونشن براہ سمندری قانون کی ابھی تک دستخط نہیں کئے اس لئے اسے اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کا کوئی حق نہیں، امریکہ کو حقائق کا احترام کرنا چاہئے، اسے اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہئے، جنوبی بحیرہ چین پر علاقائی خودمختاری کے معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے، غیرجانبدار رہ کر ہی واشنگٹن اپنا اعتماد قائم رکھ سکتا ہے، چین اپنے ہمسایوں کے بارے میں مخلصانہ باہمی مفادات کی پالیسی رکھتا ہے، جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر بھی اس کا موقف واضح ہے، چین امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، اس لئے امریکہ کو بھی چین کے ساتھ مل کر تعاون کو فروغ دینا چاہئے، چین فلپائن کے ساتھ اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہتا ہے، اس نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کو پرامن طورپر مذاکرات کے ذریعے حل کیا ہے، چین اب بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ عالمی امن و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہیگا۔
چینی صدر
نئی دہلی (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جی۔ 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات میں 46 ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری پر مشتمل چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا معاملہ اٹھایا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہانگ زو میں جی 20 سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر چینی صدر کیساتھ 35 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی امنگوں، خدشات ا ور سٹرٹیجک مفادات کا احترام کرنا چاہئے، نئی دہلی اور بیجنگ کو ایک دوسرے کے سٹرٹیجک مفادات کیلئے حساس ہونا پڑیگا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مودی نے پڑوس سے نکلنے والی دہشت گردی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ بھارت کا موقف ہے کہ اقتصادی راہداری پاکستان کے زیرقبضہ کشمیر کے علاقے سے گزرتی ہے۔ واضح رہے بھارت اس سے پہلے بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر غیر ضروری اعتراضات اٹھاتا رہا ہے تاہم چین نے ہمیشہ بھارتی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے اور کہا ہے اقتصادی راہداری منصوبہ ہر صورت مکمل کیا جائیگا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے بھارتی وزیر اعظم کو بتایا کہ دونوں ممالک کو ایکدوسرے کے خدشات کا احترام کرتے ہوئے تعمیری انداز میں باہمی اختلافات دور کرنے چاہئیں۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ملاقات کے دوران صدر شی جن پنگ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بتایا کہ چین بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں مشکل سے حاصل کی گئی اچھی پوزیشن برقرار رکھنے کیلئے کام کرنے کو تیار ہے۔ چین بھارت کے ساتھ ملکر کام کرنے تعلقات کو برقرار رکھنے اور تعاون میں مزید اضافے کیلئے کام کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر کو بتایا کہاکہ چین اور بھارت کے درمیان شراکت داری نہ صرف خطے بلکہ دنیا کیلئے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ واضح رہے دونوں ممالک میں اس سے قبل شنگھائی تعاون تنظیم، تاشقند اور گوادر میں برکس سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ملاقات میں بھارت اور چین کے مسلسل گرتے ہوئے تعلقات پر بھی بات کی گئی جس کی بنیادی وجوہات پاکستان کو اقتصادی راہداری کیلئے 46 ارب ڈالر کی امداد اور دہشت گردی ہیں۔ مودی نے اقوام متحدہ میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالفت پر تشویش کا اظہار کیا۔ شی جن پنگ نے کہا کہ دونوں ممالک کو اختلافات تعمیری انداز میں حل کرنے چاہئیں۔ چین بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ ملاقات میں نیوکلیئر سپلائر گروپ کیلئے چین کی طرف سے بھارت کی رکنیت کی مخالفت پر بھی بات کی گئی۔ چین نے بھی حال ہی میں بھارت امریکہ کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا۔ دریں اثناء بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ برکس ممالک کو دہشتگردی اور اسکے سپانسرزکے خلاف کوششیں تیز کرنا ہونگی، جنوبی ایشیا سمیت ہرجگہ موجود دہشتگردوںکے اپنے بینک یا ہتھیاروں کی فیکٹریاں نہیں ہیں، یہ چیز واضح ہے کہ کوئی دہشتگردوںکو فنڈز اور ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ مودی نے برکس ممالک کے ارکان سے خطاب میں کہاکہ دہشتگردوں کے حامیوں اور سپانسرز کو الگ تھلگ کرنے کیلئے مشترکہ کوششوںکو تیز کرنا ہوگا۔ جنوبی ایشیا سمیت ہرجگہ موجود دہشتگردوں کے اپنے بینک یا ہتھیاروں کی فیکٹریاں نہیں ہیں یہ چیز واضح ہے کہ کوئی دہشتگردوںکو فنڈز اور ہتھیار فراہم کرنا ہے۔ برکس کو نہ صرف دہشتگردی ہمارے معاشروں اور ملکوں میں عدم استحکام کا بنیادی ذریعہ اور سب سے بڑا خطرہ ہے ۔
چینی صدر/ مودی