قارئین کل 6 ستمبر ہے ایک ایسا تاریخ ساز دن جس کی اہمیت سے کون واقف نہیں ہے۔ یہ ’’یوم دفاع‘‘ اور یوم یادگار ہے جب 1965ء کی جنگ میں درجنوں سال پہلے ہماری آہنی فوج دشمن سے ٹکرائی تھی۔ جانبازوں نے ان کے ٹینکوں کی دیواروں اور توپوں کی یلغاروں کو اپنے سینوں پر روکا تھا۔ دیوقامت ٹینکوں کو خود انہی کے علاقوں میں اچھال دیا تھا اور ہمارے شاہبازوں نے دشمن کی فضائوں میں جا کر ان کے کرگس شکار کئے تھے گو کہ ہمارے مکار دشمن کی چالیں اب بھی وہی ہیں دشمنی پہلے جیسی ہے۔
لیکن الحمدللہ آج ہم ایٹمی قوت بن چکے ہی ںاور وطن کی مٹی کے ذرے ذرے پر ہمارا ایک ایک جانثار اپنی شہ رگ کو ہتھیلی پر لئے کھڑا ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ بات صرف سرحدوں کی حفاظت پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہم نے اپنے ملک کے اندر اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی ہر یوم، یوم دفاع کے طور پر گزارنا ہے تا کہ وطن عزیز اقوام عالم میں سر اٹھا کر اپنی شناخت کرا سکے ہمیں صرف ایک دشمن کا ہی نہیں بہت سے محاذوں پر دشمنوں کا سامنا ہے۔ ہم نے جہالت کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اقتصادی خوشحالی کیلئے جان لڑانی ہے۔
معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف ہتھیار اٹھانے ہیں یوں سمجھئے کہ ہر لمحہ عالم جنگ میں رہنا ہے بالکل اس روز جیسی صورتحال ہی میں رہنا جب 6 ستمبر کو ہر پاکستانی اپنے اپنے فرض کے محاذ پر اکیلا ڈٹ گیا تھا شاعروں نے اپنے ترانوں سے مجاہدوں کے خوف میں جوش کی آگ بھر دی تھی۔ گلوکاروں نے اپنے لحن کا سارا سوز لٹا دیا تھا۔ ادیبوں نے دشمنی کے عزائم کو بے نقاب کرنے کیلئے اپنے حرف کی طاقت کو ایٹم بم بنا لیا تھا۔ دوکانداروں نے ملاوٹ اور ڈاکوئوں نے ڈاکے چھوڑ دیئے تھے، نشیئوں کو نشہ بھول گیا تھا اور ظالم ظلم سے تائب ہو گئے تھے۔ زخمیوں کو خون دینے کیلئے پوری قوم نے اپنی رگیں نچوڑ کر بلڈ بینک بھر دیئے تھے۔ گھروں کو سامان سے خالی کر کے سرحدوں پر بھیج دیا گیا تھا اور عورتوں نے دفاعی فنڈ میں دینے کیلئے اپنے زیورات اور ملبوسات کے پہاڑ جما دیئے تھے ہمیں اپنے ملک کے ارتقاء و بقاء کیلئے آج بھی یوم دفاع جیسے جذبے کی ضرورت ہے جب دس کروڑ جانیں یک جان ہو گئی تھیں۔ دس کروڑ لوگوں کے سینوں میں محض ایک دل دھڑکا تھا، دس کروڑ دماغوں نے صرف ایک ڈگر پر سوچا تھا۔ آج بھی ہم نے اپنی انہی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور عظیم روایات کا دفاع کرنا ہے۔ قاسم و خالد جیسا جذبہ پیدا کرنا ہے تا کہ من الحیث القوم ہم ناقابل تسخیر بن سکیں۔ اگر گہرائی سے سوچا جائے تو قارئین کرام بات صرف سرحدوں کے دفاع ہی کی نہیں کہ جس کو تمام تر ذمہ داری فوج پر ڈال دی جائے بلکہ اگر دفاع وطن کے تقاضوں کو ہر سطح پر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قوموں کو بڑی اور مضبوط قومیں بننے اور بنانے میں پوری قوم کو اس عمل میں شریک ہونا پڑتا ہے بلکہ ہونا چاہئے اور اس کا واحد طریقہ علم اور اعلیٰ عمل کے ذریعے قوم کے شعور کو مسلسل بیدار کرنا اور بیدار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ دشمن کے چھپے ہوئے وار سے ہر دم چوکنا رہنا بھی دفاع کا اہم تقاضا ہے آج سے صدیوں پہلے ہماری تاریخ میں درج حضرت عمرؓ کے ایک خط کے چند روشن الفاظ آج بھی ہمارے لئے چراغ راہ ہیں جو انہوں نے اپنے کمانڈر سعد بن وقاص کو لکھے تھے دفاع کے حوالے سے انہوں نے لکھا تھا:
کبھی یہ نہ کہو کہ دشمن چونکہ برا ہے اسلئے کبھی ہم پر فتح نہ پا سکے گا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض بڑی قوموں پر بری قومیں بھی غالب آ جاتی ہیں جس طرح مجوسی کافر بنی اسرائیل پر غالب آ گئے تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے اپنی نافرمانیوں سے خدا کو ناراض کر دیا تھا۔
سو ہم نے بھی ہر لمحہ یہ سوچنا ہے کہ ہمارا دشمن انتہائی برا اور کمینہ ہے بزدل بھی ہے مکار بھی ہے اور کمزور بھی ہے تاہم ہم نے اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔ اسے آخری اور حتمی شکست سے دو چار کرنا ہے آج کا دن ہمارے لئے اسی تجدید عہد کا دن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنے وطن عزیز کا دفاع کر سکیں لیکن اس عمل کیلئے ہمیں ہر روز 6 ستمبر کے روز دفاع جیسے جذبے کی ضرورت ہے اور ہمیشہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭