مافیا، اشرافیا انا اور ادا

ہمارے ہاں گاڈ فادر اور سسلیئن مافیا کا بڑا تذکرہ رہا ہے۔ سسلیئن مافیا نے اٹلی کے نظام حکومت کو جکڑ کر بے بس کر دیا تھا۔ یہ مافیا اتنا طاقتور ہوا کہ حکومت اور انتظامیہ بے بس ہو کر رہ گئی۔ اس کی شورہ پستی اور قوت کا یہ عالم تھا، کہ اٹلی کے مقبول سیاستدان اور ریٹائرڈ وزیراعظم آلڈو مورو کو تاوان کیلئے اغوا کر لیا۔ اٹلی کی پولیس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن سراغ نہ لگا سکی۔40ویں روز آلڈو کی نعش دارالحکومت سے باہر جانے والی ریلوے لائن کی پٹڑی کے ساتھ پڑی ملی۔ایک موقع پر حکومت نے حالات بہتر بنانے کیلئے مافیا کوحکومت میں شریک کر لیاجس سے جرائم پھیلتے چلے گئے اور بالآخر اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے گرینڈ اپریشن کرنا پڑا۔ اس مافیا کا دوسرا نام کوسانوسٹرا تھا۔ حکومت کو اس کیخلاف میکسی ٹرائل کے نام سے دنیاکا طویل ترین ٹرائل کرنا پڑا جو 1986ء سے 1992ء تک جاری رہا۔ اس ٹرائل نے مافیا کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔
ایک کولمبیئن مافیا بھی ہوگزرا ہے جس کا سرغنہ پابلو اسکوبار تھا یہ دنیا کا سب کا بڑا مجرم مانا جاتا ہے جو ایک موقع پر دنیا کا امیرترین شخص تھا۔ تاہم 80 کی دہائی میں آفیشل درجہ بندی میں اس کا ساتواں نام آیا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کمپنگ کے شہر سے دور گیاتو ریزارٹ میں ایندھن ختم ہو گیا،اس نے بچوں کو سردی سے بچانے کیلئے 20 کروڑ ڈالر کے نوٹ انگیٹھی میں جلا دئیے تھے۔کنگپین پابلو اسکوبار یکم دسمبر 1949 کو کولمبیا میں پیدا ہوا اور 2 دسمبر 1993 کوسپیشل پولیس کے ہاتھوں ماراگیا۔ وہ 80 ٹن کوکین ماہانہ امریکہ اسمگل کرتا تھاجس سے سالانہ 20 بلین ڈالر یعنی 21 کھرب روپے سے زائد کی رقم حاصل ہوتی تھی۔امریکہ نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پابلو کو مارا جائے یا گرفتار کیا جائے لیکن پابلو نے کولمبیئن پولیس کو خرید رکھا تھا۔اس نے جج سے لے کر پولیس اور سیاست دان سے لے کر عوام تک سب کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔ جو رشوت سے قابو نہیں ہوتے انہیں طاقت سے قابو کرتا اور جو طاقت سے قابو نہ ہوتے ان کا کام تمام کردیاجاتا۔ اس نے اپنے راستے کے دیگر لوگوں کے علاوہ 200ججوں، ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو مروایا۔ وہ متحدہ امریکہ کو غاصب اور ظالم سمجھتا ، اپنی کمائی میں سے سی آئی اے کو حصہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا ۔پابلو سکوبار کی زندگی کا دوسرا رخ اس سے یکسر مختلف تھا۔وہ ڈرگ کے کاروبار سے حاصل کردہ بھاری رقم سے غریبوں کی مدد کرتا۔ غریب لوگوں کیلئے ہسپتال تعمیر کئے ، سڑکیں تعمیر کیں ، لوگوں کو گھر بنا کر دئیے اور جہاں جہاں لوگ مصیبت میں ہوتے اسکوبار انکی مدد کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتا۔ مافیا میں جو بھی لوگ رکھے ہوئے تھے ان کو بہترین تنخوا ہ دیتا تھا۔ پابلو نے اپنے کارندوں کو کبھی تنگ نہیں کیا بلکہ ان کو بھی عام لوگوں کو نقصان نہ پہنچانے کی نصیحت تھی۔
پابلو نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ کولمبیا کا صدر بننا چاہتا ہے تاکہ وہ غریبوں کی زندگی بدل سکے۔ اس مقصد کیلئے انتخابات میں حصہ لیا اور جیت گیا۔ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد ایک اجلاس میں شرکت کے دوران اسکے اپنے پارٹی کے منتخب وزیرانصاف نے اس پر تنقید کی۔ وزیر انصاف سی آئی اے کا ایجنٹ تھا جس کی تقریر کو کولمبیا سمیت امریکی اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے بڑے زور و شور اور اہتمام کے ساتھ نشر کیا۔ اس منفی تشہیر کے فوراً بعد کولمبیا بھر میں اس مافیا کیخلاف ریاست حرکت میں آ گئی اور اچانک بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ۔
حکومت امریکی پریشر میں آ چکی تھی ، اس کا ادراک پابلو کو بھی ہو گیا‘ اس نے سرنڈر کرنے پرمشروط رضامندی ظاہرکی۔ اس نے خود محل نما جیل بنائی جس کے اندر اور باہر کئی میل دور تک حفاظت کیلئے اپنی پولیس تعینات کر دی۔اس جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں میسر تھیں۔جیل کے تمام اخراجات اسکے ذمے تھے۔امریکہ کا مزید دبائو بڑھا تو حکومت نے اسے سرکاری جیل میں منتقل کرنے کی کوشش کی،اس پر وہ آمادہ نہ تھا۔ وہ سرنگ کے ذریعے جیل سے فرار ہو گیااور چھپتے چھپاتے مقابلے میں مارا گیا۔ مافیاز اور گینگسٹر کا سب سے بڑا ہتھیار تو دھونس، غنڈہ گردی اور بے رحمی ہوتا ہے مگر وہ عوام کے دل جیتنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اٹلی میں مافیاز پر جیسے ہی ہاتھ ڈالا گیا انکی حمایت میں لوگ مظاہرے تک کرتے رہے۔ پابلو اسکوبار کو آج بھی بہت سے لوگ پوجا کی حد تک چاہتے ہیں۔
فرعون اللہ رب العزت کا نافرمان تھا۔ اسکے فرمانبرداروں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ اسکے مراعات اور مفادات یافتہ لوگ دل و جان سے اس پر فدا تھے۔ یہ طبقہ آگے اپنے حلقہ اثر میں مافیا کے کارنامے بڑھ چڑھ کر بیان کرتا ہے۔ جن لوگوں تک پابلو کے ہزاروں لوگوں کو گھر بنا کر دینے اور اس کی غریب پروری کی داستانیں پہنچی ہیں وہ آج بھی اسکے گن گاتے اور اس کو راہ سے ہٹانے والوں کو مطعون کرتے ہیں۔ انکے سامنے مافیا کا صرف شرفا اوراشرافیہ والا چہرہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی مافیاز نے کوئی خیر نہیں کی۔ آج ہماری معیشت کی زبوں حالی آدھی سے زیادہ آبادی کی بدحالی کے ذمہ دار مافیاز ہیں۔ گو یہ سسلیئن اور کولمیبئن مافیاز کی طرح منظم اور طاقتور نہیں ہیں اور انکی طرح جنگجو بھی نہیں ہیں۔ کراچی‘ لاہور‘ پنڈی‘ فیصل آباد اور ملتان جیسے شہروں میں مافیاز، ڈان اور گینگسٹر ضرور ہیں مگر ان شہروں اور دیگر نسبتاً چھوٹے شہروں میں کوئی بھی ایک شہر ایسا نہیں جو مکمل طور پر کسی ایک ڈان، مافیا یا گینگسٹر کے تسلط میں ہو۔ کراچی کبھی ایک بے رحم ڈان کے نرغے میں تھا۔ اب یہ ڈان عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں مافیا کا خاتمہ نسبتاً آسان ہے کیونکہ ان کے پروردگان اور در دولت سے فیضیاب ہونے اور مراعات و مفادات پانے والے اور انکی فیاضی، سخاوت اور’’لکھوکھا‘‘ لٹانے کی داستانوں سے متاثر ہونے والے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دم بھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں رات کو دن اور سیاہ کو سفید کر دکھانے والے فنکار بے شمار پائے جاتے ہیں۔ کچھ قبلہ تبدیل کرنے میں بھی لاثانی ہیں۔ کل جن کو سابق وزیراعظم کے سر پر بادل سایہ فگن نظر آتے تھے آج انہیں نئے وزیراعظم پر قدرت مہربان نظر آتی ہے۔ کون چور، کون سادھ اس کا فیصلہ کسی حکومت اورلیڈر نے نہیں ہم نے خود کرداروں کا جائزہ لے کر اپنے ضمیر کے مطابق کرنا ہے۔ہماری سیاست بامرادیوں اور نا مرادیوں کا مرقع ہے ۔ نامرادیوں نے خون تک سفید کر دئیے ہیں۔ ایک لیڈر کو آنکھ کا تارا تو اسکے حریف کو نفرت کا استعارہ بنا لیا جاتا ہے۔ ان سیاسی محبتوں اور نفرتوں میں رشتوں کا احترام تک نابود ہوتا دیکھا گیا ہے ۔ رشتے ٹوٹتے دوستیاں دشمنی میں بدلتی دیکھی گئی ہیں، مگر ہم اپنے دل میں بسے ’’فنکاروں ‘‘ کی کاریگریوںکو نہیں دیکھتے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین اختلاف ذاتیات اور دشمنی تک چلے گئے تھے۔ حامیانِ بینظیر اور نواز کی کمانیں بھی تنی نظر آتی تھیں۔ میثاق جمہوریت ہوا اور دونوں بہن بھائی بن گئے۔ ن لیگ اور پی پی پی کی 2008کی انتخابی مہم فرینڈلی تھی۔ پی پی اور ن لیگ نے مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں بنائیں ۔ 2018ء کے انتخابات ایک دوسرے کیخلاف کسی بھی حد تک جا کر لڑے اور پھر انتخابات کے بعد ایک ہوگئے ۔ صدر کے الیکشن میں پھر نفرتوں کی دیوار نظر آئی۔ کل پھر ایک ہو سکتے ہیں۔ عمران خان اے پی ڈی ایم میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں اس اتحاد کا حصہ تھے۔ آج دونوں دوانتہائوں پر ہیں کل پھر مل کر بیٹھ سکتے ہیں۔ عمران نے پرویز الٰہی کو ڈاکو اور شیخ رشید کو چپڑاسی کہا تھا مگر آج۔۔۔ (جاری)
صدارتی الیکشن سے قبل سیاست میں بڑے اتار چڑھائو آتے رہے۔ اپوزیشن متحد نہ رہ سکی۔ عارف علوی کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا تھا جس میں لیگی لیڈر کی انا اور مولانا فضل الرحمن کی ادا آڑے آگئی۔ اعتزاز احسن صدارت کیلئے بہت سے لوگوں کی نظر میں مناسب امیدوار تھے۔ ایک موقع پر پی ٹی آئی بھی انکی سپورٹر تھی۔ آج لیگی حلقوں کیلئے اعتزاز احسن اس لئے معتوب ہیں کہ انہوں نے لیگی قیادت کے بارے میں منفی بیان بازی کی یہی لوگ اس وقت اعتزاز کی بڑی ستائش کر رہے تھے جب وہ پی پی میں رہتے ہوئے نواز شریف کے مقدمات لڑتے تھے۔ ان دنوں کو مدنظر رکھ کر اعتزاز پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ سیاست میں حمایت اور مخالفت دائمی نہیں ہوتی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا سب سے بڑا دشمن جنرل مشرف تھے اور آج شاید کچھ کو عمران خان نظر آتے ہوں۔اسی مشرف سے زرداری حکومت میں شامل ہو کر بلند پایہ لیگی لیڈروں نے حلف لیا تھا۔
کل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا نواز شریف اور عمران باہم گلے مل سکتے ہیں مگر آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ سیاست میں نفرتوں کے الائو بھڑک رہے ہیں وہ کہیں ہمارے خرمن کو نہ جلا دے۔لیگی قیادت کا عزم راسخ دیکھیں،کل اسے شکوہ تھا کہ ستر سال میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔آج اسے عمران بطور وزیراعظم برداشت نہیں ہورہا۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن