امریکہ نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے افغان پالیسی پر امریکی حکمت عملی کے سائے تلے چلنا ہوگا۔ امریکہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے سے قبل پاکستان کی سکیورٹی امداد کی بحالی ممکن نہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے مزید مطالبہ کیا کہ وہ طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ یعنی انہیں مسلح جدوجہد ترک کرنے پر آمادہ کرے۔ امریکہ نے سکیورٹی تعاون کی معطلی کا اعلان جنوری میں کیا تھا۔ معطلی میں کولیشن سپورٹ فنڈ بھی شامل تھا۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے بھارت افغانستان میں کردار دیا جانا پاک امریکہ تعلقات میں خرابی کی اصل وجہ ہے۔
بھارت کو افغانستان میں کردار ملنے سے سب سے پہلی خراب یہ پیدا ہوئی کہ امریکہ کی افغان پالیسی مکمل طورپر بھارت کے تجزیوں اور جائزوں کے تابع ہوکر رہ گئی ۔ اس طرح بھارت کو پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کا ایک اچھا ذریعہ مل گیا۔ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ امریکہ پاکستان تعلقات کو مثالی تو دور کی بات ہے‘ گوارا سطح تک بھی آئیں۔ اب جب بھی افغانستان میں دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے افغان انتظامیہ کی راہ سے امریکی بیان آجاتا ہے جو کابل کے بھارتی سفارتخانہ میں بیٹھ کر تصنیف کیا گیا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں پاکستان ملوث ہے جبکہ دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان کا دور دور تعلق بھی نہیں ہوتا۔ بھارت امریکہ کو اس سلسلے میں خیالی حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے فرضی ٹھکانوں کے حوالے دیکر گمراہ کرتا رہتا ہے۔ امریکہ نے تعلقات کی بہتر کی جو شرط لگائی ہے‘اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے اسے افغانستان میں امریکی وائسرائے تسلیم کر لے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف خوفناک جنگ لڑی اور بے بہا جانی و مالی قربانیاں دیں۔ وہ برادر اسلامی ہمسایہ ملک افغانستان میں دہشت گردی کیسے گوارا کر سکتا ہے مگر بھارت نے اپنی عیاری کی بدولت امریکہ اور افغانستان کو پاکستان کے بارے میں گمراہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح پہلے اس نے سی پیک منصوبے کو خطے پر چینی اقتصادی غلبے کا تسلط اور امریکہ کے تجارتی و معاشی مفادات کیلئے سنگین خطرہ بنا کر پیش کیا اور یوں اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ کا تعاون حاصل کیا۔ اگر اس میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی‘ اب امریکہ کی طرف سے پاکستان پر شرط لگانا اگر وہ امریکہ سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے افغان پالیسی پر امریکی حکمت عملی کے سائے تلے چلنا ہوگا۔ آزاد و خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ایسی شرائط کسی بھی صورت قابل قبول نہیں جن سے خودداری متاثر ہوتی ہو۔