ادب اور شعراء برادری کا حصہ بننے پر مجھے دو حوالوں سے اعجاز و اعزاز حاصل ہے، پہلی بات کا تعلق ستمبر 1965 کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ سے ہے۔ہمارے شعراء نے ایک ایک گھنٹے کے توقف سے صدا بہار گیتوں اور ملی نغموںکے ا یسے گلدستے دیئے جن کی خوشبوؤں اور مہکاروں سے آج بھی اہل وطن کے دل معطر ہیں۔جوش ملیح آبادی کو کیسے بھلائیں؟
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں
پاکستانی آج بھی ترانے کے بول سن لیں تو دل و دماغ میں پاکستان دوستی کی ایسی شمع فروزاں ہوجاتی ہے جس کی روشنی کل کی طرح آج بھی ہمارا سرمایہ ہے۔صوفی تبسم کی یاد کب فراموش ہوگی
؎اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبدی پھرے بازار کڑے
اے سودا نقد وی نہیں ملدا
تولبدی پھرے ادھار کڑے
میرا دوسرا حوالہ شہداء پاکستان سے محبت ،عقیدت اور عشق رکھنا ہے،میں اس قبیلے کا حصہ ہوں حس کی زندگی پاکستان سے شروع اور پاکستان پر ختم ہوتی ہے۔اپنے وطن کے خلاف کبھی بات سنی نہ اس کی تاب رکھتا ہوں،میرا جینا مرنا پاکستان، میرا عشق اور مرا جنون پاکستان ہے۔
نثار ناسک یاد آگئے
ایسی زمیں اور آسماں، اس کے سوا جا نا کہا
بڑھتی رہے یہ روشنی ، چلتا رہے یہ کاررواں
مجھے 65 کی جنگ کا کچھ کچھ احوال یاد ہے،یقین جانے ایسا جذبہ تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔آپ گوگل ریسرچ کرلیں آپ کو پاکستانیوں سے زیادہ کسی قوم کی اپنے ہیروز اور شہداء سے محبت و عقیدت نہیں ملے گی۔یہ جذبے انمول،یادگار اور انمٹ ہیں ، انشاء اللہ سلامت رہیں گے۔ ستمبر1965ء ہمارے لیے تفاخر کا باعث ہے کہ جب پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی بھارت کا یہ حملہ نہ صرف انسانی تقاضوں کے خلاف تھا بل کہ عالمی قوانین کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی تھا۔ پوری دنیا متحیر ہوگئی جب پاکستانی فوج اور عوام کا رخ بھارت کے خلاف ہوا۔ پاکستان میں مقیم اقلیتوں نے بھی بھارت کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بل کہ اُن کے خلاف سروں سے کفن باندھ لیے۔ بھارت نے طلوع آفتاب سے پہلے حملہ کیا ۔ مجاہدین کو اس بات کا یقین تھا کہ شہید کی موت ، قوم کی حیات ہے ۔اس لیے وہ ولولہ ٔ تازہ لیے آگے بڑھے ۔ ارضِ وطن کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہر پاکستانی اپنے محاذ پر چوکنا ہوگیا۔ شہادتوں کے سفر نے قوم کو حیات نو بخشی ۔ وطن کی مٹی سے کھایا ہوا اناج آج کام آیا۔ وطن کے مجاہد بھارتی حملہ آوروں پر عقابوں کی طرح جھپٹے ۔ حلقۂ چشم میں سمایا ہوا جذبۂ شہادت کام آیا ۔ 17روزہ جنگ میں ہمارے سرفروشوں نے اُس جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا کہ میدان بدر کی یاد تازہ ہوگئی۔ شہدائے وطن نے اپنے لہو سے دفاعِ وطن کے چراغ روشن کر دیے ۔ اُنھیں اس بات کا یقین ہے کہ شہید کا کفن لحد میں بھی ترو تازہ رہتاہے ۔ اُس کے بدن کی خوشبو سے شہرِ خموشاں خوشبو مستعار لیتاہے۔ مسلمانوں کو یہ جذبہ وراثت میں ملا ہے ۔ میدان بدر، اصحابِ حنین ، جنگِ یرموک، جنگ قادسیہ ، فتح مکہ، معرکۂ کربلا اور قیصرو کسریٰ کے محلاتِ شاہی کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا دینے والے مناظر آج بھی چشمِ انسانیت میں موجود ہیں۔ بھارت کو اس جنگ میں ہر محاذ پر شکست ہوئی ۔ چونڈہ بارڈر پر بھارتی ٹینکوں کی تباہی بھارتی فوج کیسے بھول سکتی ہے ؟جب پاکستانی سرفروش جسموں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ اُنھوںنے اپنا وہ وقت ہمارے آج کے لیے قربان کر دیا۔ اُنھوںنے جرأت ، شجاعت کے وہ دیپ جلائے کہ آج تاریخ چشمِ حیرت میں اُن کی روشنی محسوس کرتی ہے ۔ واہگہ سیکٹر پر زندہ دلانِ لاہور ہاکیوں اور ڈنڈوں سے لیس پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ تاریخ نے یہ لمحات بھی اپنے دامن میں محفوظ کر لیے کہ جب ایک جواں سال پائلٹ محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم نے بھارت کے دو منٹ میں پانچ جب کہ مجموعی طور پر آٹھ طیارے مار گرا کر فضائی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ وہ 18مارچ 2013ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے لیکن اُن کا کارنامہ پاکستان کی فضائیہ کے لیے ایک روشن مثال ہے ۔ صدر ایوب خان کی ولولہ انگیز تقریر آج بھی ہماری سماعتوں کو جرأت ، بہادری اور شجاعت عطا کرتی ہے ۔ پاکستان پایندہ باد ۔پاک فوج زندہ باد