اگلے روز اخبارات میں سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کے مظاہروں کا ذکر تھا۔ یہ ماہی گیروں کی تنظیم ’ ’ فِشر فُوک ‘‘ نے کرایا جس کا اعلان اگست کے پہلے ہفتے میںکیا گیا تھا۔ مظاہرہ پاکستانی پانیوں میں ڈیپ سی فشنگ ٹرالروں کو لائسنس دئیے جانے کے خلاف کیا گیا۔ان کے مطابق یہ لائسنس ، برادر ملک عوامی جمہوریہ چین کے 20 عدد ٹرالروں کو دئیے گئے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے exclusive economic zone میں ٹرالروں کی کارروائی سے اِن پانیوں میں ہمارے لئے مچھلیوں کے اسٹاک میں واضح کمی آ جائے گی ۔نیز یہ کہ ہماری ساحلی پٹی کے ذخائر میں پہلے ہی بے تحاشا مچھلی پکڑنے کی وجہ سے گزشتہ سال 72 فی صد کمی واقع ہو چکی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ اِن ٹرالروں نے ابھی اپنا کام شروع نہیں کیا۔ تنظیم کے لیڈروں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اِن ٹرالروں سے چھوٹے ماہی گیروں کی روزی پر لات پڑے گی اور سمندر ی حیات اور ماحولیات شدید متاثر ہو گا۔ گوادر کے ماہی گیروں نے بھی ڈیپ سی فشنگ ٹرالروں کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں تک تو یہ ایک خبر ہے لیکن اس سے آگے پاکستان، عوامی جمہوریہ چین اور 50 ملین امریکی ڈالر کے قسمت بدل اقتصادی پروگرام ’’ سی پیک ‘‘ کے خلاف بھارت کی چالیں صاف محسوس ہو رہی ہیں۔ اس پروگرام میں گوادر کی بندرگاہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارت کے ایما پر گوادر کے مقامی ماہی گیروں سے سی پیک کے خلاف مظاہرہ کروایا گیا تھا۔ مظاہرے کا کوئی مقصد ہوتا ہے جس پر عام پبلک اور میڈیا کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں کے ماہی گیروں سے مظاہرہ اس بات پر کروایا گیا کہ گوادر میں ہونے والے ترقی کے کام اُن کی روزی یعنی ماہی گیری میں حائل ہو رہے ہیں !! اب یہاں پر ماہی گیروں کی انجمن کے کچھ ذمہ داروں سے یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ اِن چینی ٹرالروں کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی شہروں کے ڈھائی ملین افراد سے ان کی روزی چھینی جائے گی۔ یہ ایسے ہے جیسے بلوچستان کا سمندر اُن کو بیچ دیا جائے۔ اس خیالی تشویش کو گوادر کے نمائندہ قومی اسمبلی، اسلم بھوٹانی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچایا جا چکا ہے۔یہ تو صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے کہ بھارت سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔بھارتی ہائی کمیشن کا ایک ایک فرد دل جمعی سے اپنے ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ جب کہ ہمارے کوتاہ نظر مقامی اور قومی سیاسی لیڈران، متعلقہ شعبوں کی لیبر یونینوں ، دیگر نمائندہ تنظیموں کے لیڈران عام طور پر اپنی ذات سے آگے علاقے، شہر، صوبے اور ملک کے لئے نہیں سوچتے۔کیا قومی اسمبلی میں گوادر سے لے جانے والا اور کوئی مسئلہ نہیں؟ یہ ہی واحد مسئلہ ہے ؟بھوٹانی صاحب قومی اسمبلی میں یہ بات لے کر گئے ہیں کہ گوادر کے چھوٹے ماہی گیر تو گہرے پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے نہیں جا سکتے نہ ہی وہ ان ٹرالروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں لہٰذا اُن گہرے پانیوں میں چین کے فشنگ ٹرالروں کی وجہ سے لوگ اِن کے خلاف ہیں اور چین کے خلاف ناراضگی بڑھ رہی ہے … عجیب ہی بات ہے!! گہرے پانیوں میں مقامی ماہی گیر جاتے ہی نہیں ۔ پھر وہاں بہت بڑے حجم کی مچھلیاں کم پانیوں میں آتی بھی نہیں کہ مقامی ماہی گیر ان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں۔ پھر ڈیپ فشنگ ٹرالروں کا رونا کس لئے؟ اور چین کے خلاف ناراضگی کیسی؟ پاک چین دوستی کے خلاف رخنہ ڈالنے کے لئے مقامی ماہی گیروں میں یہ بھارتی اثر اور یہ زہریلی سوچ ڈالی جا رہی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین نے اپنے سمندری پانیوں میں ان فشنگ ٹرالروں سے مچھلیوں کا صفایا کر دیا ہے اور اب وہ بحرِ ہند میں پاکستانی ساحلوں پر یہ دیو قامت ٹرالر لے آئے ہیں۔ اپنی کالونی سمجھ کر !! اس معاملے پر ہمارے کسی ٹی وی چینل نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جب کہ بھارت کے شہری، ہمارے دوست ممالک کی تعلیمی درسگاہوں میں وہاں تحقیق کے نام پر اس بات کو کیسے ڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں نیشنل ڈیفنس کالج کی ’’ اسٹریٹی جِک اسٹڈیڈیز ‘‘ strategic studies کے پروفیسر موہن ملک وہاں کیا زہر پھیلا رہے ہیں۔وہ کھلے عام کہتے ہیں : ’’ بیلٹ اینڈ روڈ ( سی پیک ) پر دستخط کرنے والے ممالک کسی بھی معاملے پر اب چین کے سامنے ’’ نہیں ‘‘ " no " نہیں کر سکتے۔جب کہ چین کے ڈیپ سی فشنگ ٹرالروں کے شکاری طریقوں سے ایسے ممالک کے اپنے ماہی گیر شدید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔چین کے پاس دنیا بھر میںفشنگ ٹرالروں کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔جس کے پیچھے خود حکومتِ چین ہے۔بحرِ ہند میں اپنی سمندری خوراک کی دستیابی کے لئے پاکستان کی ساحلی پٹی اب اِن کی زد میں ہے۔پوری دنیا کی سمندری خوراک کی ایک تہائی کھپت چین میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کے خلاف گوادر کے ماہی گیروں میں غصہ اور ناراضگی پائی جاتی ہے ‘‘۔ موہن ملک صاحب !! آپ پروفیسر ہیں۔یو اے ای کی نیشنل ڈیفنس کی بات کیجئے جس کی آپ کو تنخواہ ملتی ہے۔ یہاں بھی پاکستان اور عومی جمہوریہ چین کے خلاف دل کا بغض نہیں گیا !! کیا یو اے ای والے آپ کو پاکستان اور چین کے خلاف زہر اگلنے کے پیسے دیتے ہیں؟ یا آپ بھارت کی کسی درس گاہ میں ہیں ؟ افسوس صد افسوس کہ متحدہ عرب امارات کے نیشنل ڈیفنس کالج میں ایک پروفیسر یہ کہہ رہا ہے اور اس کی کوئی پکڑ نہیں۔ بہرحال !! فشنگ ٹرالروں کو یہ پہلی مرتبہ اجازت نہیں دی گئی ۔اس سے پہلے بھی یہ آتے رہے۔مثلاََ دسمبر 2015 میں بھی ایسی ہی تشویش کی لہر اُٹھی تھی۔اُس وقت بھی ماہی گیروں کی یہ ہی دونوں انجمنیں اور یہ ہی لیڈران تھے لیکن چونکہ یہاں کوئی بھارتی مفاد نہیں تھا لہٰذا صرف فشنگ ٹرالروں کو گہرے پانیوں میں لائسنس دینے کے خلاف مظاہرہ ہوا۔جس ملک کے یہ ٹرالر تھے اُس ملک کے خلاف ایسی کوئی بات اِن لیڈران نے نہیں کہی۔نہ کوئی نمائندہ قومی اسمبلی میں یہ بات لے کر گیا کہ فلاں ملک کے فشنگ ٹرالروں کے آنے سے مقامی ماہی گیروں کی روزی پر لات پڑ گئی ہے یا فلاں ملک کے یہ ٹرالر ہیں اس کے خلاف مقامی آبادی میں تشویش اور ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ پھر نومبر 2018 میں بھی ڈیپ فشنگ کے مسئلے پر لانچ مالکان کے احتجاج کے باعث کراچی فش ہاربر پر کام بند ہونے سے روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ماہی گیری سے وابستہ افراد مہینوں شدید اضطراب میں رہے۔ لانچیں کھڑی ہونے اور سپلائی نہ ہونے سے برف کارخانہ مالکان کو ماہانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا اور اس پیشے سے وابستہ 5000 مزدور بھی شدید متاثر ہوئے۔ اُس وقت احتجاج اور اخبارات میں صرف ’’ غیر ملکی ‘‘ ٹرالر کا ذکر ہوتا تھا۔اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اب ہر بات میں عوامی جمہوریہ چین کا نام کیوں لیا جا رہا ہے !! اے کاش کہ ہمارے ٹاک شو اور دیگر قومی امور پر بات کرنے والے ماہرین بیچ اس مسئلے پر بھی تو کچھ بولیں !!