آج کے صاحب شام، شام اعزازجناب عامر شہزاد صدیقی اب صاحب کتاب سے صاحب قرطاس ہو گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور فن کی کئی پرتیں ہیں۔ آپ صاحب ِ دل ہیں، صاحب ثروت ہیں، صاحب ذوق ہیں، بی بی کے صاحب ہیں، صاحب اولاد ہیں+ صاحب اقتدار سے بھی تعلق رکھتے ہیں صاحب کشف اور صاحب کرامات ہیں۔ مجلسی اور عوامی آدمی بھی ہیں۔ سیاحت اور سیاست کے شناور بھی ہیں اور سماج کے آدمی بھی ہیں جو انہیں شاعر سمجھتے ہیں لیکن وہ میر کا یہ شعر سنا کر جان چھڑا لیتے ہیں
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان ہوا
صاحب ذوق ہیں اچھے اشعار پھولوں کی خوشبو کی طرح دوستوں میں نگر نگر پھیلانے کا صدقہ جاریہ کرتے ہیں اور پذیرائی بھی حاصل کرتے ہیں یعنی
کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
یوں تو بہت سے لوگوں کو شعروں کاانتخاب رسوا ہی کرتا ہے لیکن ان کے انتخاب کی یار دوست داد ہی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
کورونا کی بلا اوروبا نے فاصلوں کی خلیج کو خاصا وسیع کئے رکھا ہے شکر الحمد اللہ کہ اب صورتحال پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیںوالی نظر آنے لگی ہے۔ ملتان ٹی ہائوس کی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد غالباً ٹی ہائوس میں یہ پہلی بھرپور تقریب ہے جس میں شہر کے ادیب، دانشور اور شاعر حضرات کے مل بیٹھنے کی کوئی سبیل نکلی ہے۔ ورنہ تو لوگ آن لائن رابطوں اور دوریوں کی وجہ سے خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے۔
لاک ڈائون کے چھ ماہ بھی سال پر محیط لگنے لگے تھے اور اب گویا
برسوںکی اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں
ہم آج تیرے لب سے ادا ہونے لگے ہیں
والا معاملہ نظر آ رہا ہے۔
حرف یکتا، لفظ جی اٹھے، تسلیوں کے حروف اور اوراق زیست کے بعد اب جناب عامر شہزاد صدیقی کے کالموں کے پانچویں مجموعے کی تقریب رونمائی و پذیرائی منعقد ہو رہی ہے۔ اس لحاظ سے عامر شہزاد کو پانچواں درویش بھی کہہ سکتے ہیں۔ عامر شہزاد صدیقی قلم و قرطاس سے جڑی اس شخصیت کا نام ہے جو علمی ، ادبی، صحافی ، سیاسی ، معاشرتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے صحرا میں ایک عرصے سے دشت نوردی کر رہے ہیں۔ مشرق اور مغرب کی ثقافت اور رہن سہن نے ان کی شخصیت کو جاذبیت بخشتی ہے۔ سکارٹ لینڈ کا حسن آوارگی اور ملتانی مٹی کی کشش بھی ان کی شخصیت میں رچی بسی ہے۔ آواز کی دنیا میں اپنا نام بنانے والے عامر شہزاد صدیقی دوستوں کی محفلوں کو زندہ اور آباد رکھتے ہیں۔صاحب قرطاس کے کالم ان کے دیگر کالموں کے مجموعوں کا تسلسل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ موضوعات کی تازگی اور بصیرت و بصارت کا استعمال ان کی تحریر کو خوبصورت بناتا ہے۔ ان کے بیشتر کالم نوائے وقت کے صفحات کی زینت بنتے ہیں اوریہ کریڈٹ بھی میگزین ایڈیٹراور ہمارے دوست سلیم ناز کو جاتا ہے جن کی شفقت کے باعث لوگ’’اہل کتاب‘‘ ہوجاتے ہیںآپ کی تحریر کی طرح آپ کی گفتگو بھی دل پذیر ہوتی ہے گویا باتوں کے پھول جھڑتے ہیں اور ملنے والا ان کی شخصیت کے سحر کا اسیر ہوتا ہے۔
تیری خوشبو نہیں ملتی ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا
عامر شہزاد صدیقی کے کالموں کے پانچویں مجموعہ کی تقریب رونمائی اور پذیرائی منعقد ہو رہی ہے جس میں کچھ باتیں خاصی قدر مشترک رکھتی ہیں۔ صاحب تقریب عامر شہزاد ہیں تو نقیب محفل عامر محمود نقشبندی ہیں لیکن اس تقریب پر آمریت کا شائبہ اس لیے نہیں ہے کہ صاحب انوار ڈاکٹر انوار احمد مسند صدارت پر جلوہ افروز ہیں جن کے ہوتے جمہوریت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔کورونا کی وجہ سے جہاں دیگر سرگرمیاں ماند پڑی ہوئی تھیں وہاں ادبی سرگرمیاں بھی تعطل کا شکار رہیں۔ عامر شہزاد کے کالموں کی کتاب کی تقریب رونمائی نے گویا اس ادبی جمود کو بھی توڑنے کی کوشش کی ہے اور اب اس تقریب کے بعد دیگر تقاریب کا سلسلہ بھی شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کامیاب تقریب پر سویل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اور دانشور فورم کے منتظمین بھی مبارک باد کے مستحق ہیں اور صاحب قرطاس کے لیے دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
٭٭٭٭٭
صاحب کتاب سے صاحب قرطاس تک
Sep 05, 2020