’’اشرافیہ اور عوام‘‘ کی ورق گردانی

میری ساری زندگی نوائے وقت میں لکھتے ہوئے گزری ہے اور ابھی تک مسلسل لکھ رہی ہوں۔۔۔سعید آسی صاحب کی دو کتابیں اشرافیہ اور عوام کل وصول ہوئیں۔ سعید آسی صاحب کو نوائے وقت کے حوالے سے جانتی ہوں اور بلکہ ان کا کالم جو اداریہ میں آتا ہے وہ روز پڑھتی ہوں۔ اشرافیہ اور عوام ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔اس کتاب میں لاتعداد کالم انہوں نے لکھے ہیں۔ نہ صرف کالم نویس ہیں بلکہ شاعر بھی ہیں۔۔۔میں ان کی کالموں کی کتاب کی ورق گروانی کرنے لگی۔۔۔اور میں سوچنے لگی کہ جس طرح ہر شخص ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔۔۔اس کی عادات اور خصلت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی تو پھر وہ ادیب ایک دوسرے سے کیوں نہ مختلف ہو۔ویسے تو ہر ایک ادیب اور شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ میری تحریر اچھوتی اور مختلف دوسروں سے ہو۔۔۔اس ضمن میں وہ کامیاب بھی ہو ئے ہیں۔۔۔اور بڑی ایمانداری کا ثبوت بھی دیا ہے۔اپنے کالم ’’اسیں اپنے آپے مر جانا‘‘میں لکھتے ہیں ۔’’ہم نہ جانے کن کن مافیاز کے شکنجے میں جکڑے زندگی کوبے ڈھب انداز میں گزار رہے ہیں۔ کبھی ہم شوگر مافیا کا مسلط کردہ مہنگائی کا بوجھ اٹھائے ہوئے پھر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی فلورز مل مافیا اور آئل مینو فیکچررز اپنی من مانیوں پر اتر کر ہمیں یر غمال بنائے رکھتے ہیں اور کبھی فارما سیوٹیکل کمپنیاں کمیشن پر رکھے گئے اپنے ڈاکٹروں کے ہاتھوں کسی معمولی مرض کی بھی مہنگی ترین اور غیر ضروری ادویات تجویز کروا کے ہماری جیبوں میں ڈاکے ڈال رہی ہوتی ہیں۔ یہ سارے مافیا درحقیقت حکومتوں کی چھتری کے نیچے پروان چڑھتے ہیں‘‘۔ پھر لکھتے ہیں۔ایک جید ڈاکٹر کی رپورٹ نے مجھے پریشان کر دیا ہے جنہوں نے دنیا کے معروف ڈاکٹروں کی تحقیق اور عرق ریزی سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ200تک کے شوگر لیول پر کوئی شخص شوگر کے مرض میں لاحق نہیں ہوتا۔ مگر ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرتے کرتے وہ شوگر کا مریض بن جاتا ہے۔ آپ کو خوفزدہ کر کے مختلف ادویات کے استعمال کا عادی بنا دیگا کیونکہ یہ ادویات تجویز کرنے کا ہی ڈاکٹر متعلقہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے کمیشن ملتا ہے۔یہ کالم پڑھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔کہ سعید آسی صاحب اتنے مزاح نگار ہیں میں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ہر بات کا سچائی سے ثبوت دیتے ہیں۔۔۔اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ قاری پڑھتے پڑھتے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جو کچھ مریض کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے اس میں حقیقت ہوتی ہے۔۔۔حالانکہ باہر کے ملکوں کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ بہت سے امراض کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی ہوں۔۔۔وہ ایک پین کلر(painkiller)بھی دیتے ہیں تو پوری جانچ پڑتال کر کے دیتے ہیں۔۔۔ بلکہ مریض کو اینٹی بائیوٹک (antibiotic)دینی ہو تو ۔۔۔کوشش کرتے ہیں کہ وہ ویسے ہی چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے۔ اگر بہت دنوں تک ٹھیک نہ ہو پھر جا کرکہیں اینٹی بائیو ٹک تجویز کرتے ہیں۔سعید صاحب کے کالم کا سٹائل دوسرے ادیبوں سے کافی مختلف ہے۔اپنے کالم ’’جو سکھایا سبق کرونا نے‘‘میں لکھتے ہیں۔آج پوری دنیا میں اگر کوئی چیز موضوع بحث ہے اور انسانی ذہن پر حاوی ہے تو وہ کرونا وائرس ہے۔یہ وائرس کہاں سے آیا کیسے نمودار ہوا کس نامہ اعمال سے پھسل کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔۔۔اور انسانی ہلاکتوں کے انبار لگاتا گیا۔۔۔تو جناب اس جان لیوا وائرس انسانی معاشرے کو پندرہ بیس فوائد ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔ قدرت نے اس آفت کو سرکش انسانی معاشرے کیلئے کیسے نعمتِ غیر مترقبہ بنایا ہے۔ کرونا وائرس نے سینما گھر،نائٹ کلب ،رقص گاہیں،شراب خانے،جوا خانے بند کروا دئیے۔کرونا وائرس نے چھینک مارنے کا اصل طریقہ سکھایا اور یہ یاد کروایا صفائی کس طرح کی جاتی ہے۔جسے حضرت نبی ٔ آخر الزمان،محسن انسانیت محمد مصطفی ﷺ نے نصف ایمان قرار دیا۔اور ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہر گز نہیں۔ چین نے تیسری عالمی جنگ جیت لی ہے بنا کوئی میزائل یا گولی چلائے۔سعید صاحب کو قدرت نے مشاہدہ کی قوت سے مالامال کیا ہے اور روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر ان کی گہری نظر ہے جس سے انہوں نے بڑے بڑے نتائج اخذ کئے ہیں۔ وہ اپنے گردوبیش کی دنیا سے خوب واقف ہیں۔۔۔ان کی آنکھوں کے آگے اس زمانے کی تصویریں پھرتی ہیں تو اپنا قلم اٹھاتے ہیں اور ہر بات سچ سچ لکھ دیتے ہیں۔ اور ان کے اندر طفنن طبع سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔۔۔میری دعا ہے کہ اسی طرح لکھتے رہیں اور لوگ خوب مستفید ہوتے رہیں۔آمین۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...