انگریزی کہاوت "The Pen is mightier than the sword" قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے کو پہلی بار ناول نگار اور ڈرامہ نگار ایڈورڈ بل ورلیتوں نے 1839 میں اپنے تاریخی ڈرامے ’’کارڈینل ریشلیو‘‘ میں استعمال کیا تھا ۔پردہ اٹھتا ہے اور کنگ لوئی ہشتم کے وزیراعظم ریشلیو کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی جان لینے کے لیے سازش کی جا رہی ہے لیکن چونکہ وہ ایک مذہبی پیشوا تھا اس لیے تلوار نہیں اٹھا سکتا تواس کا نوکر فرانسکو اسے کہتا ہے ’’آپ کے حکم کے طابع دوسرے ہتھیار ہیں ‘‘۔ریشلیو اس سے متفق ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ یقینا قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے ،لے جائو یہ تلوار حکومتوں کی اس کے بغیر بھی حفاظت ہوسکتی ہے‘‘ اور پھر اس کہاوت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ سنہ1840 کی دہائی تک یہ زبان زد خواص و عام تھی اور آج اس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے کیونکہ بنیادی طور پر اس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر تشدد اور طاقت کے استعمال سے زیادہ فکرو تحریر کااثر ہوتا ہے بلاشبہ قلمی چوٹ براہ راست انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے ،تبھی کہا جاتا ہے کہ زندگی میں قسم ،قدم اور قلم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے اور تاریخ گواہ ہے کہ جنھوں نے سوچ سمجھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کیا انھوں نے قوموں کی تقدیر بدل دی کیونکہ ’’قلم اٹھتا ہے تو سوچیں بدل جاتی ہیں۔
میرے اس خیال کو تقویت تب ملی جب میں نے محترم سعید آسی کی تصنیف ’’ اشرافیہ اور عوام ‘‘ کا مطالعہ کیا جو کالموں کا ایسامجموعہ ہے جو کہ ملکی و قومی حالات کا چشم کشا آئینہ ہے۔ میں نے جناب کی تحریروں سے یہی جانا ہے کہ وہ اقتداراور مفادات کے کاسہ لیسوں اور خوشامدیوں کے لیے دلی نفرت رکھتے ہیں مگر اس نفرت کا اظہار نپے تلے انداز میں اس خوبی سے کرتے ہیں کہ ہر دل کی آواز بن جاتے ہیں اور کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی کیونکہ وہ مثبت تنقید پر یقین رکھتے ہیں ۔انتہائی سادگی سے اپنی بات دوسروں تک ایسے پہنچا تے ہیں کہ جسے پڑھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ ’’ میں انسانی معاشرے میں آئین ‘ قانون اور انصاف کی عملداری کا قائل ہوں اور اس میں کسی بھی قسم کی گرہ لگانا بھی گناہ کبیرہ اور جرم عظیم سمجھتا ہوں ۔اگر ہمارے معاشرے میں آئین و قانون کی حکمرانی ‘ انصاف کی عملداری اور شرف انسانیت والی انسانی اقدار نہیں پنپ پائیں تو اس معاملہ میں بھی انسانی برتری والا زعم ہی کارفرما رہا ہے حکران اشرافیہ طبقات اسی خناس کا شاہکار ہوتے ہیں جن کے بارے شاعر علامہ محمد اقبال نے بجا طور پر یہ فتوی دیا تھا کہ ۔۔پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات ۔سو آئین و قانون کے تحت قائم کسی سسٹم پر مجھے انسانی نخوت و تکبر حاوی ہوتا نظر آتا ہے تو میرا قلم بھی اس پر سراپا احتجاج بن جاتا ہے‘‘ اور اسی احتجاج کو ’’ اشرافیہ اور عوام ‘‘کے صفحات میں سمویا گیا ہے نیزبین المعاشرتی اور بین المذاہب ارتباط سے در آنے والے انکشافات پر جب ان کا دل کڑھتا ہے تو شاعری کاسہارا لے لیتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر حساس اور آگہی رکھنے والے ادیب اور دانشور ہیں ۔ در حقیقت ’ اشرافیہ اور عوام ‘‘ہماری سیاست اور صحافت کا شفاف آئینہ ہے ۔
یقینا صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں ،راہنما بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے عہد کے ادبی و صحافتی شہہ پاروں کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہر باشعور کہنے پر مجبور ہوا کہ اب بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان جیسے بے باک اور نڈر صحافی کہاں ہوتے ہیں جن کی زندگیاں عظیم المرتبت پیغمبروں کے کردار اور تعلیمات کی روشنی سے منور تھیں جو اپنی ذات میں ماہر صحافی ،بے مثل خطیب ،اورفی البدیہہ شاعر ،ممتاز تجزیہ نگار ،اور اعلیٰ منتظم ہونے کے علاوہ حق گوئی و بیباکی کے جواہر سے مالامال تھے کیونکہ آجکل وہ نفسا نفسی کا دور ہے کہ سبھی روزی روٹی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں درحقیقت نام و شہرت اور دلکش عہدہ ہی سبھی کا مدعا ہے لیکن سعید آسی صاحب نے اپنے صحافتی سفر میں عزت و وقار کو اپنا زاد سفر بنایا اور علی الاعلان کہا کہ ’’قلم کی حرمت کو بیچ دینا ہماری رسمِ جفا نہیں ۔ حاتم طائی کے الفاظ بالکل صادق آتے ہیں ۔۔حاتم طائی نے کہا تھا کہ میں نے چار علم حاصل کیے اور دنیا کے تما م عالموں سے چھٹکارا پا لیا ! کسی نے پوچھا : وہ چار علم کونسے ہیں ؟ حاتم طائی نے جواب دیا :پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا جو رزق میری قسمت میں لکھا ہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے نہ کم ،اس لیے میں زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا ۔دوسرا یہ کہ اللہ کا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ،ادا نہیں کر سکتا ،اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا ،تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈھونڈ رہی ہے اور وہ ہے میری موت ، میں اس سے بھاگ نہیں سکتا ،لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ۔چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باخبر رہتا ہے چنانچہ میں نے اس سے شرم رکھی اور برے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا ۔یہ چار علم زندگی کے لیے ایسی مشعل راہ ہیں کہ جنہوں نے انہیں اپنالیا ، ان کے لیے زندگی آسان اور مطمئن ہوجائے گی اور میں نے یہی طمانیت سعید آسی صاحب کے چہرے پر دیکھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نامور لکھاریوں نے ان کی تصنیف پر جو آراء دی ہیں ان کا خلاصہ بقول شاعر یہی ہے کہ
ہمارے ہاتھ میں قلم کی طاقت ہے
قلم کی نوک پر ظالم کی گردن ہے
دلوں پر راج کرتے ہیں دل میں رہتے ہیں
یہی ہماری شاعری ہے ، یہی ہمارا فن ہے
نظامی مرحومین نے ’’نوائے وقت ‘‘ کے جس معیار اور وقار کو قائم کیا تھا آپ نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہی استقامت دیکھ کر میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ نوائے وقت ایک ایسی یونیورسٹی ہے کہ جس کے مالکان اگر چانسلر ہیں تو سعید آسی صاحب اس کے وائس چانسلر ہیں جو حق گوئی کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔
اشرافیہ اور عوام ‘‘ایسی تصنیف ہے جس کا مطالعہ حکمرانوں اور سبھی صحافیوں کیلئے اشد ضروری ہے اور مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ عام آدمی کاایسا نوحہ ہے جو بالادست طبقے کے لیے ایک تازیانہ ہے اگر اس پوری کتاب کو ایک سطر میں سمویا جائے تو ہر سطر یہی کہتی ہے کہ’’ تمھیں لگتا ہے میری آہیں خالی جائیں گی ۔۔نہ نہ کوئی تو تمھاری دنیا بھی ہلائے گا ایک دن۔‘‘’’اشرافیہ اور عوام ‘‘ ملکی و قومی حالات کا چشم کشا آئینہ ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت کتاب بھی ہے جس کی دلکشی اور حسنِ طباعت و بائینڈنگ کو دیکھ کر اس کے ناشر علامہ عبدالستار عاصم قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی جنھوں نے سعید آسی کی گرانقدر تحریروں کو جو ادب و صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں، قابل دید بنا دیا ۔