مسلم لیگ (ن )نے باقی بچ جانے والی پی ڈی ایم جس کے روح رواں مولانا فضل الرحمن ہیں کے ساتھ مل کر ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی ٹھان لی ہے یہ اعلان مسلم لیگ (ن) پر بہت بھاری پڑ سکتا ہے بقول شیخ رشید سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے عام انتخابات میں 2 سال کا وقت رہ گیا ہے اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ موجودہ حالات میں کسی بھی صورت حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ایسے میں لوگوں کو یہ خواب دکھانا کہ ہم عوام کو اسلام آباد لے کر جائیں گے اور حکومت ختم کروا کر قبل از وقت الیکشن کروا لیں گے محض ایک خواب تو دکھایا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ایسے میں غیر حقیقت پسندانہ فیصلہ الٹا پڑ سکتا ہے کیونکہ سیاست میں ہوا سے بھرے ہوئے غباروں کا ہی بھرم ہوتا ہے اور جس کے غبارے سے ہوا نکل جائے وہ ساتویں آسمان سے نیچے آگرتا ہے راستے میں اسے سہارا دینے والا کوئی نہیں ہوتا حالات یہ ہیں کہ تمام الیکٹ ایبلز اس وقت اگلے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہو رہے ہیں اور ہر کوئی اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار جتوا کر اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے حکومت پنجاب میں سال کے آخر میں یا نئے سال کے آغاز میں بلدیاتی الیکشن کروانے کا سوچ رہی ہے اندازہ لگائیں کہ ایسے حالات میں لوگ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے یا بلدیاتی الیکشن لڑیں گے فنی لحاظ سے بھی پی ڈی ایم کا فیصلہ مات کھا جائے گا مسلم لیگ( ن )اگر بلدیاتی انتخابات کا میدان چھوڑے گی تو گراس روٹ لیول سے فارغ ہو جائے گی اور اگر اسلام آباد جانے کے فیصلہ سے واپسی کی راہ لیتی ہے تو کمزوری ظاہر ہوتی ہے پی ڈی ایم کی قیادت نے مسلم لیگ کی سیاست کو کنفیوژکر دیا ہے اوپر سے دو متضاد بیانیے مسلم لیگ (ن) کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں مسلم لیگ ن نے پچھلے 3 سالوں میں مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے آزما کر دیکھ لیے دونوں بیانیے ماسوائے کارکنوں کو کنفیوژکرنے کے کوئی نمایاں تاثر قائم نہ کر سکے آج حال یہ ہے کہ خواجہ آصف جیسے بندے بھی کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کو ایک بیانیے پر آنا ہو گا اب دونوں بیانیے اکھٹے کر کے کوئی تیسرا بیانیہ معرض وجود میں نہیں لایا جا سکتا بہتر یہی ہے کہ اگر مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ انھیں مفاہمتی بیانیہ سوٹ کرتا ہے تو فیصلے شہباز شریف کو کرنے دیے جائیں اور مریم نواز کو اگلے انتخابات تک خاموش کروا دیا جائے اور اگر مزاحمتی بیانیہ اپنانا ہے تو میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور سارا کچھ مریم کے ہینڈ اوور کر دیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کاغذوں میں میاں شہباز شریف صدر ہیں جبکہ فیصلے سارے میاں نواز شریف کے چلتے ہیں اور جدوجہد کا سمبل مریم نواز ہیں حال ہی میں میاں شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد کہا کہ وقت کا تقاضاہے کہ قومی حکومت قائم کی جائے اگلے ہی دن مریم نواز نے چچا جی کو یہ کہہ کر ٹکے ٹوکری کر دیا کہ قومی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب وہ چلے گا جو مریم بی بی چاہیں گی اور شاید میاں نواز شریف اور مریم فیصلہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے مزاحمت کرنی ہے اس کنفیوژصورتحال میں پارٹی کے اہم رہنماؤں جن میں خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا تنویر، راجہ ظفر الحق، سردار ایاز صادق اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں اور گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی دبے لفظوں میں کرتے ہیں لیکن اصل معاملہ کارکنوں کا ہے جو واضح ڈائریکشن نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں ایک طرف حکومت اور پیپلزپارٹی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو ایسے مواقع پر مسلم لیگ ن ایجی ٹیشن کی طرف جا رہی ہے پی ڈی ایم حکومت کے خاتمہ کا سلوگن دیکر اسلام آباد جانے کی بجائے صرف مہنگائی کا ایشو لے کر میدان میں اترتی تو اگلے الیکشن تک عوام میں ایک تحریک پیدا کر کے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی کیونکہ اس حکومت کی سب سے بڑی کمزوری مہنگائی پر قابو نہ پانا ہے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ڈی ایم موجودہ حالات میں جبکہ ایک طرف افغانستان کا ایشو ہے دوسری طرف بھارت کے عزائم ہیں تیسرا پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے اور محب وطن حلقوں کی ہمدردیاں حاصل کر پائے گی سب سے اہم بات الیکشن لڑنے والے اس احتجاج میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے وہ اس کو بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں ان کا موقف ہے کہ اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے انھیں اگلے الیکشن کی تیاری کے لیے کام کرنا چاہیے اب آخری فیصلہ پی ڈی ایم کا نہیں نواز شریف کا چلے گا اور وہ شاید مسلم لیگ ن کو مزاحمت کے آلاؤ میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں۔