تاریخ کے تباہ کن سیلاب کی پھیلائی گئی ویرانیوں اور گہرے پانیوں میں پہنچ کر خدمت انسانیت میں مصروف المصطفیٰویلفیئر ٹرسٹ کے جواں ہمت رضا کارو ! تم ہمارا فخر ہو ، تم مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کا چراغ ہو۔۔ تمہارے جذبے اور ہمت کو سلام۔
آنسووں میں بھیگی یہ سطور پڑھنے والے دردمند لوگو ! ان بے بس اور بے کس انسانوں کی درد بھری پکار سنیں ، جن کا سب کچھ سیلاب بہا لے گیا ہے۔ان افتادگان خاک کو تنہا نہ چھوڑیں جن کے پاس بھوک ، پیاس اور آنسووں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ان ستم رسیدہ، مصیبت زدہ انسانوں کی لاچارگی اور بے چارگی کو محسوس کریں جن کے کچے گھروندے مسمار ہو گئے۔ جن کی ہنستی مسکراتی بستیاں ملبے اور گارے کا ڈھیر بن گئیں۔ جن کی روٹی روزی کا ذریعہ مویشی سیلاب کی وحشی لہروں کی نذر ہو گئے۔۔ جن کی لہلہاتی فصلیں اجڑ گئیں ، جن کے کھیت کھلیان ویران ہو گئے۔ جن کی بچیوں کے جہیز پانی میں بہہ گئے۔ جن کی برسوں کی جمع پونجی لٹ گئی۔۔۔ جن کے پیارے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ پیارے دوستو ذرا سوچئے! جہاں سیلاب آیا وہاں میرا اور آپ کا گھر بھی ہو سکتا تھا، زیادہ نہیں تو جو ہے ، جتنا اور جیسا ہے پیش کیجئے ، عطیہ ، خیمہ ، راشن ، ادویات ، تسلی، تھپکی، حوصلہ دیتی آواز۔ جو ہے ایثار کیجئے۔ اہل زمیں پہ مہربانی کیجئے اور عرش والے رب کو خوش کیجئے۔ دوستو ! ہمارے گھروں میں ذرا سا پانی کھڑا ہو جائے تو ہماری نیند اڑ جاتی ہے۔ یہاں تو پانیوں میں گھر کھڑے ہیں۔ کھڑے بھی کہاں ہیں ، دلدل بن گئے ہیں ، اینٹیں ، گارا اور کیچڑ بن گئے ہیں۔ اور گارے میں دبی فاقہ زدہ زندگیاں ہیں، جو سسک رہی ہیں، بلک رہی ہیں اور آپ جیسے مہربانوں کی راہ تک رہی ہیں۔ نہ سر پہ سائبان ، نہ پاوں تلے خشک زمین ، ایک آسمان ہے جو ہر روز برستا ہے۔
پیارے لوگو ! المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی ملک گیر امدادی مہم میں اپنا حصہ شامل کر کے بے سروسامان سیلاب زدگان کا درد بانٹنے کا فرض اور قرض ادا کیجئے۔
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
احبابِ گرامی
آج کل ملک پر آئے ہوئے سیلابی عذاب اور قابلِ نفرت سیاسی ریشہ دوانیوں نے عجیب کیفیت کر رکھی ہے ایسے حالات میں جو لوگ دھڑا دھڑ تقریبات اور مشاعرہ بازی کی پوسٹس درج کر رہے ہی اْن سے مجھے شدید دکھ پہنچتا ہے بلکہ ان لوگوں کی بے حسی پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات کو نظر انداز کر کے بوسیدہ قسم کے مشاعرے اور پھر ان کی تصاویر کی نمائش میں مصروف ہیں۔
لاشیں پانی پر تیر رہی ہیں، دلدل بنی ہوئی زمین پر قبریں بنانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی. دوسری طرف مہنگائی لوگوں کو خود کشی تک لے آئی ہے روزانہ ایک سے ایک بڑا المیہ سامنے آ جاتا ہے۔ امیرطبقے کی بے حسی کا عالم ہم سے ڈھکا چھپا نہیں، انہیں سوائے اپنے نازنخرے کے کوئی چیز بھی عزیز نہیں۔ کوئی پیزاہاٹ اوربرگرپوائنٹ ہمیں خالی نظرنہیں آتا۔ کسی بھی برینڈکی خریداری کم نہیں ہوئی۔ ابھی دو دن پہلے تک کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈر کو یہ ہوش نہیں تھا کہ پانی ہماری جڑوں تک پہنچ چکا ہے اور وہ اپنے جلسے کرنے بلکہ تماشا کرنے اور عوام کو ریوڑ سمجھتے ہوئے ہانک رہے تھے۔
یقین کیجئے کہ عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو ملک کے مسائل سے کوئی علاقہ نہیں اور نہ کبھی تھا۔
اِس کرب ناک حالت میں لکھنے اور سوچنے والوں کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستانی تاریخ کے اس بدترین موڑ پر اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیے سوچیں اور دیانت داری سے لکھیں. ورنہ یہ دانشوری اور شاعری کسی کام کی نہیں۔
سیلابی طوفان میں سارے ڈوب گئے
گاؤں ، ٹیلے، گھر ,چوبارے ڈوب گئے
کْرلاتی تھی ملبے سے کچھ ڈھونڈتی ماں
دل کے ٹکڑے , لال پیارے ڈوب گئے
اک دکھیارے باپ نے بین کئے رو رو
میرے بچے , دل کے سہارے ڈوب گئے
آنگن کی دیوار گری ,چھت ٹوٹ گئی
اور کسی کی آنکھ کے تارے ڈوب گئے
کرسی ، عہدے اور طاقت کی جنگ لڑو
تم کو کیا جو سب بیچارے ڈوب گئے
اتنا آنکھیں روئیں رات کہ اشکوں میں
خواب جو دیکھے تھے وہ سارے ڈوب گئے
عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی یہ سوچنا ہے کہ سیلاب سے بچاکر محفوظ مقام پر لوگوں کو پہنچانے کیلئے انہیں خود سیلابی ریلے میں اترنا پڑے گا۔جس میں اگر وہ پورے اترگئے تو اپنی ذات کے علاوہ ملک وقوم بالخصوص بلوچستان کے پسماندہ عوام کے دلوںمیں ہمیشہ کیلئے گھرکرجائیں گے، اگرانہوں نے نے اس نادر موقع کا جوکہ ایک قدرتی آفت کے طور پر انہیں ملا ہے صحیح استعمال کیا تو بلوچستان کی صورت حال یکسر بدل سکتی ہے۔ مشکل کی گھڑی میں امداد کیلئے آگے بڑھاہوا ہاتھ کبھی نہیں بھولتا۔ اپنے عمل اور ترجیحات سے ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ ریاست حقیقی معنوںمیں ماں جیسی ہوتی ہے اور وہ عناصر جو بلوچستان کے عوام کو ورغلا تے اور بہکاتے ہیں وہ ان کے خیرخواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ آج قدرت نے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ برسوں کے زخموں پر مرہم رکھی جائے اور دل جیتے جائیں۔ پوری فوجی قیادت کو اس سلسلے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، وزیراعظم کو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک ملک کے تمام علاقوں کے عوام بالعموم اور بلوچستان کے بالخصوص اپنے گھر میں واپس آباد ہوجائیں۔