مسلم لیگ (ق) کے بانی صدر اور سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر بڑے کھلے ڈھلے بندے ہیں اور اکثر پنجابی کی اصطلاحیں استعمال کر کے اپنی گفتگو کو دلچسپ بنا لیتے ہیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک انصاف عوام میں جڑیں پکڑ رہی تھی اور تحریک انصاف میں شمولیت رسک کے سوا کچھ نہیں تھا ایک دن میاں اظہر مجھے کہنے لگے کہ یار حماد نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔وہ اٹھتے بیٹھتے ہر روز مجھے کہتا ہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہو جاو قیامت دیاں نشانیاں نیں ہن اے بچے سانوں سیاست سکھاون گے اور بالآخر ایک دن عمران خان میاں اظہر کے گھر گئے اور میاں اظہر ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ۔وقت نے ثابت کیا کہ حماد اظہر کا فیصلہ درست تھا ۔ بے شمار اہم خاندان اور شخصیات کے گھروں کی حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہے ان کی اولادوں نے ان کا ناک میں دم کر رکھا ہے کہ عمران خان کا ساتھ دو اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے خلاف فیصلوں کی راہ میں اہم شخصیات کی اولادیں رکاوٹ ہیں۔ عمران خان نے نوجوان نسل کے ذریعے بڑے بڑے مورچوں میں" سن " لگا لی ہے ۔
آج نوجوان نسل نے انقلاب برپا کیا ہوا ہے اور سیاست کے بڑے بڑے گرگوں کے تمام تر حربے ناکام ہو رہے ہیں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا گجرات کے معروف سیاسی خاندان کو کرنا پڑا۔ چودھری مونس الہی نے اپنے والد کو مجبور کیا کہ عمران خان کے ساتھ مل کر سیاست کرنی ہے۔ سارا خاندان ایک طرف تھا اور مونس الٰہی ایک طرف تھا۔ آخر کار اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو کر چودھری پرویز الٰہی عمران خان سے ملنے چلے گئے۔ عمران خان نے انھیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا۔ جب عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کو امیدوار نامزد کیا اس وقت تک گیم تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ پارٹی کے اندر بغاوت ہو چکی تھی 25 ارکان اسمبلی ن لیگ کے ساتھ جاچکے تھے ۔گورنر عمران خان کی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی تجربہ کی روشنی میں پتے کھیلنے شروع کیے تو تحریک انصاف کو کچھ حوصلہ ملنا شروع ہوا۔ اصل لڑائی پنجاب اسمبلی کے اندر ہو رہی تھی جہاں چودھری پرویز الٰہی کا مکمل کنٹرول تھا ۔چودھری پرویز الٰہی نے حمزہ شہباز کی ایک نہ چلنے دی ۔تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر بھی ن لیگ کے ساتھ مل چکے تھے اس کے باوجود چودھری پرویز الٰہی جگاڑ لگا کر الیکشن کے راستے میں رکاوٹ بنے رہے اور آخر کار مسلم لیگ ن کو پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانا پڑا اور پھر عمر سرفراز چیمہ جنھیں پنجاب کا گورنر بنایا گیا تھا نے چودھری پرویز الٰہی کا مکمل ساتھ دیا ن لیگ مکمل طور پر زچ ہو کر رہ گئی۔ اگر چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب میں ن لیگ کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی ہوتیں تو آج تحریک انصاف کی سیاست یہ نہ ہوتی اور نہ ہی پنجاب دوبارہ ان کے ہاتھ آتا۔ وفاقی حکومت کو ’’ایک حد ‘‘ میں رکھنے اورنو ن لیگ کو پنجاب میں کارنر کرنے میں چودھری پرویز الٰہی کا اہم کردار ہے۔ آخر کار جب 20نشستوں پر تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کر کے مینڈیٹ چودھری پرویز الٰہی کی جھولی میں ڈال دیا تو حالات بدل گئے۔ چودھری خاندان کی اکثریت بھی مونس الٰہی کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ اب چودھری خاندان واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے۔ باوقار سیاستدان چودھری شجاعت حسین بھی مستقبل کی سیاست کو نہ سمجھ سکے اور وضعداری اور اولاد کی محبت میں آصف زرداری کے ہاتھوں استعمال ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج چودھری شجاعت کے بیٹے وفاقی وزیر ہونے کے باوجود کہیں نظر نہیں آ رہے جبکہ چودھری مونس الٰہی بغیر کسی سرکاری عہدے کے پوری آب وتاب کے ساتھ جگمگا رہے ہیں۔ عمران خان کا انھیں مکمل اعتماد حاصل ہے بلکہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور تحریک انصاف کی قیادت میں پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ والد اپنی اولاد کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ بیٹے نے والد کو وزیر اعلی بنوایا ہے۔ چودھری مونس الٰہی نے ثابت کیا ہے کہ ان کی آنے والے حالات پر گہری نظر تھی اور ان کا فیصلہ درست تھا۔ آج پنجاب کے اکثر معاملات میں ان کی مشاورت نظر آتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کاساتھ دیا ہوتا تو وہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو کبھی قبول نہ کرتے۔ جو پنجاب میں فری ہینڈ تحریک انصاف نے چودھری پرویز الٰہی کو دیا ہوا ہے ن لیگ کبھی نہ دیتی ۔مونس الٰہی کا جو سیاسی قد کاٹھ تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے سے بنا ہے وہ شاید کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد بھی حاصل نہ کر پاتے۔ چودھری مونس الٰہی پنجاب کی سیاست کے بڑے کھلاڑی کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کا اقتدار سنبھالتے ہی ڈگمگاتی سیاست اور لڑکھڑاتے انتظامی معاملات کو مستحکم کیا آج پنجاب میں مسلم لیگ اس طرح خاموش دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جن لوگوں نے پنجاب حکومت کو ٹف ٹائم دینا تھا وہ اپنی گرفتاریوں سے بچتے پھرتے ہیں عدالتوں سے اپنی ضمانتیں کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کو انتظامیہ کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ کا تو فن پہلے سے ہی آتا تھا لیکن ایسے حالات میں جب وفاق کے ساتھ پوری طرح ٹسل چل رہی ہو گورنر، چیف سیکرٹری ،آئی جی پولیس وفاق کا ہو اس کے باوجود ان کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ پیدا کر کے کام نکالنا اور حالات کو مستحکم کرنا یہ سیاسی معجزے ہیں ۔عثمان بزدار سیاسی طور پر جو کام ساڑھے تین سالوں میں نہ کر سکے چودھری پرویز الٰہی نے چند ہفتوں میں کر دکھایا ۔