موجودہ دور کی جنگوں میں پروپیگنڈا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار کے طور پر ابھرا ہے۔ پروپیگنڈا افواج کی فتح کو شکست میں اور شکست کو فتح میں بدل سکتا ہے ۔ اس لیے آج کل کے دور میں کوئی ملک پروپیگنڈا کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔
بھارت پروپیگنڈا میں ہم سے بہت آگے ہے۔ بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو پروپیگنڈا کے ذریعے بلیک میل کیا اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ ہی ہمیں مجرم بنا کر پیش کیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بے قصور ہونے کے باوجود بھی قصوروار ٹھہرائے گئے اور یہی حالت جنگ ستمبر کی بھی تھی۔ وہ اپنی فلموں، اپنے ایکٹروں اور اپنی پریس کے ذریعے سے اپنی ہر بات کو خصوصی رنگ دے کر اپنے عوام اور بیرونی دنیا پر اثرانداز ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایسی کوئی مہارت نہیں۔ بھارت نے بیرونی دنیا کے لیے جنگ ستمبر کی ابتدا اس مشہور فقرے سے کی جو بھارت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل این جے چوہدری نے کہا تھا ’’آج شام ہم لاہور جم خانہ میں جشن منائیں گے‘‘ بی بی سی جیسے معتبر ادارے نے بھی جنگی خبروں کی ابتدا اسی فقرے سے کی اور پھر ساتھ ہی خبر نشر کی گئی کہ بھارتی فوج (خدانخواستہ) بی آر بی پار کر کے لاہور میں داخل ہو گئی ہے۔
اس ایک خبر نے جنگ کے پہلے ہی دن جنگ کی قسمت کا فیصلہ بھارت کے حق میں کر دیا۔ یہاں پر یاد رہنا چاہیے کہ یہ خبر سراسر جھوٹی تھی جو بھارت کی پروپیگنڈا مہم نے تیار کی اور پوری دنیا میں نشر کرا دی۔ اس ایک خبر سے بھارت نے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ اس خبر سے سب سے پہلے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بہت متاثر ہوئے۔ کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مار کر روئے۔ وہ بہت زیادہ بددل ہو گئے۔ اس دور میں اندرون پاکستان ٹی وی تو تھا نہیں خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو یا اخبار تھے۔ لوگ پل پل کی خبر جاننے کے لیے بے قرار تھے۔ کچھ لوگ سارا سارا دن ریڈیو کان کے ساتھ لگائے رکھتے اور جب یہ خبر بی بی سی پر نشر ہوئی ہمارے لوگوں کا برا حشر ہوا۔ وہ جس ذہنی عذاب سے گزرے اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ اس سے دوسرا فائدہ بھارت کو یہ ہوا کہ ڈانواں ڈول بھارتی عوام جنہیں خود بھی بھارتی فتح کا یقین نہ تھا یکدم خوشی سے پاگل ہو گئے۔ سب سے ز یادہ دکھ بھارتی مسلمانوں کو پہنچا کیونکہ پاکستان ان کے لیے امیدوں کا سہارا تھا انہیں یہ یقین تھا کہ پاکستان بہادری سے نہ صرف بھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ بھارت کو شکست بھی دے سکتا ہے اور برے وقتوں میں بھارتی مسلمانوں کا سہارا بن سکتا ہے۔ اب پاکستان کے یوں ایک ہی دن میں گرنے سے ان کی امیدوں کا مرکز بھی ڈوب گیا۔
بھارتی فوج ایک شکست خوردہ فوج تھی۔ 1962ء میں چین سے برے طریقے سے مار کھائی تھی۔ اس مار کے بعد بھارتی فوج کا جنگی جذبہ اور مورال بہت زیادہ پست تھا۔ ڈری ہوئی اور پست ہمت فوج یکدم شیر ہو گئی اور 1962ء کی شکست کا داغ دھونے کے لیے بے قرار ہو گئی۔ جو یونٹیں تاحال جنگی محاذ تک نہ پہنچی تھیں وہ فاتحین میں اپنا نام لکھوانے کے لیے محاذ پر حصہ لینے کے لیے بیتاب ہو گئیں۔ ہماری فوج میں بھی اس خبر کا منفی اثر ہوا۔ جوانوں میں جب لاہور محاذ کی خبر پہنچی تو پریشانی اور بے چینی لازمی تھی۔ انہیں سمجھ نہ آتی تھی کہ یہ یکدم ہو کیسے گیا۔ لیکن شکر ہے خدا کا کہ ہمارے آفیسرز نے اسی وقت معاملہ سنبھال لیا اور جوانوں کو پتا چل گیا کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ اس سے بددل جوانوں میں بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوا۔ جوش جہاد ا ور جوش شہادت بالآخر غالب آ گیا۔
آکاش وانی نے جھوٹی خبریں نشر کرنا شروع کر دیں۔ بی بی سی بہرحال پہلی خبر کے ساتھ محتاط ہو گیا۔ بھارت نے ہوشیاری یہ کی کہ کسی بھی غیر ملکی صحافی کو محاذ پر جانے کی اجازت نہ دی ورنہ جھوٹ پکڑا جاتا۔ جبکہ پاکستان نے پہلے چند روز تو سرکاری پریس ریلیز دی بعد میں سارا محاذ صحافیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا کہ وہ خود جا کر حالات کا تجزیہ کرتے رہیں۔ ان صحافیوں نے جب تجزیے اور رپورٹیں بھیجنی شروع کیں تو دنیا کی رائے تبدیل ہونی شروع ہوئی۔
رائے میلونی (Roy Meloni) امریکن براڈ کاسٹنگ سروس کا پرانا تجربہ کار اور معتبر صحافی مانا جاتا تھا۔ اس کا تجزیہ 15 ستمبر 1965ء کو مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا جسے بڑے بڑے اخبارات نے بھی شہ سرخیوں سے شائع کیا۔
’’میں پچھلے بیس سالوں سے صحافت سے منسلک ہوں۔ میں یہ بات واضح طور پر ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں کہ میں نے آج تک اتنے پراعتماد اور فتح کے جذبے سے سرشار سولجرز نہیں دیکھے جو اب پاکستان کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان مکمل فتح کا اعلان کر رہا ہے لیکن مجھے فتح کا کہیں نشان تک نظر نہیں آیا۔ میں نے صرف یہ دیکھا ہے کہ فوجی جوان، فوجی ٹینک ، اور فوجی سازو سامان سب محاذ کی طرف رواں دواں ہیں اور اگر ہندوستانی ایئرفورس اتنی ہی فاتح اور طاقتور ہے تو ان بڑھتے ہوئے فوجی قافلوں کو کیوں نہیں روکتی۔ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ پاکستانی جہازوں نے بھارتی ایئر فورس کا بھرکس نکال دیا ہے اور وہ پاکستان کے لیے خطرہ بننے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔ پاکستانی مسلمان پیدائشی جنگجو ہیں۔ ان کی ہمت و حوصلے چٹان کی مانند ہیں۔ اس قسم کی جنگ جو اب پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری ہے دونوں طرف پروپیگنڈا کے دعوے حیران کن ہیں لیکن آج اگر مجھے دونوں میں سے کسی ایک کی فتح پر شرط لگانی پڑے تو یقینا میں اپنی شرط کا پیسہ پاکستان پر لگائوں گا‘‘۔ ایسی ہی رپورٹس باقی صحافیوں کی تھیں۔
جنگِ ستمبر اور بھارتی مکاری
Sep 05, 2022