آزاد نظم لکھنے والے سلیمان حیدر اپنی ناک پر رومال دھرے کہہ رہے ہیں۔کوئی جا کر ایدھی کو بتائے کہ ریاست کی نعش سے بو اٹھنے لگی ہے ۔ یہاں ایک سوال اہم ہے ۔ کیا ریاست کا لفظ حکومت کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ؟ شاعر لاہور شعیب بن عزیز نے برسوں پہلے اشاروں کنایوں میں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔
یہ تیرے دوست تجھے دفن کیوں نہیں کرتے
شعیب فوت ہوئے تجھ کو اک زمانہ ہوا
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خاں اور طرح کی بات کرتے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے قائل نہیں۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ہی تو اصل پاکستان تھا۔ پھر مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی چہ معنی دارد۔ وہ پوچھتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب، سندھ ، بلوچستان میں مسلم لیگی حکومت تھی ہی کہاں ؟ ان کا کہنا ہے کہ کے پی کے سمیت چاروں صوبوں میں سرداروں، خوانین اور جاگیرداروں کی حکومت تھی ۔ پھر ڈھاکہ شہر ہی مسلم لیگ کی جنم بھومی تھی ۔ افضال بیلا کی سنیے۔ ’’میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بہت رویا تھا۔ آدھی صدی سوگ مناتا رہا۔ مگر اب سوچتا ہوں کہ بنگالی بھائی ہمارے وڈیروں ، سیاستدانوں ، بیورو کریٹ اور اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ہو کر اچھے ہی رہے ‘‘۔ بھوکا بنگالی‘‘ اک لفظ تھا جو مغربی پاکستان کے جاگیردار ان بنگالی حریت پسندوں سے نجات پانے کیلئے ہمارے ذہنوں میں انڈیلتے رہے ۔ بنگال میں جاگیرداری نہیں تھی ۔ ان کی قیادت کا رہن سہن سادہ تھا۔ متحدہ پاکستان کے آخری دنوں میں مولوی فرید احمد جو ڈھاکہ بار ایسوس ایشن کے صدر بھی رہے ، لاہور صرف دھوتی اور بنیان میں آن اترے۔ ان سے انکے لباس کے بارے میں پوچھاگیا تو وہ بتانے لگے کہ اُدھر آدھے بازوئوں والی بنیان اور دھوتی کو مکمل لباس سمجھا جاتا ہے ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے جاگیرداری کے خلاف قرارداد بھی پاس کردی تھی ۔ ہمارے جاگیردار ان کے ساتھ رہنا اپنی جاگیروں کے حق میں مناسب نہیں سمجھتے تھے ۔ سو انہوں نے پہلے روز سے ہی علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بھوکا بنگالی کی اصطلاح اسی سوچ میں گھڑی گئی ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے پچاس برس بعد آج مغربی پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے مشرقی پاکستان سے آئی امداد ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے ۔
بنگال کے سیاستدان عالم فاضل تھے ۔دبنگ اور جرأت مند تھے ۔ جبکہ ادھر تلنگے ہی ہمارے حصے میں آئے ہیں۔ ’بازار غزل سارا تلنگوں سے بھرا ہے ‘۔ سیاست جاگیرداروں کے نرغے میں رہی ۔ ایک جاگیردار اول و آخر جاگیردار ہوتا ہے ۔ اس کی ساری سیاسی تگ و دو جاگیریں بچانے میں گزر جاتی ہے ۔ مغلیہ دور میں جاگیریں وراثتی نہیں تھیں۔ایک جاگیردار کے مرنے کے بعد زمین دوبارہ دربار کو منتقل ہو جاتی تھی ۔ نیا جاگیردار مقرر ہوتا اور پھر ملکیت اسے منتقل کی جاتی ۔ مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے ہندوستان میں اپنی سیاسی معاشی گرفت مضبوط کرنے کیلئے انگریزوں نے یہاں زرعی اراضی میں نجی ملکیت کو رواج دے کر زمین کے وسیع رقبوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کر دیا۔ اسطرح نوابوں ، راجواڑوں اور جاگیرداروں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو انگریز سلطنت کے قیام اور استحکام میں ان کا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوا۔ دراصل غیر ملکی ہونے اور مقامی باشندوں کی طرز بود و باش ، روایات اور ثقافت سے مکمل طور پر واقف نہ ہونے کے باعث انگریز حکمرانوں کو ایسے لوگوں کی تلاش تھی جن کے ذریعے وہ اپنا غلبہ اورتسلط کو نہ صرف قائم رکھ سکیں ۔ انگریز حکمرانوں کی ضرورت کو راجوں ، مہاراجوں ، نوابوں اور جاگیرداروں نے پورا کیا۔ اپنی خدمات کے عوض انہوں نے بے پناہ مراعات بھی حاصل کیں۔ اس کے نتیجے میں یہ لوگ انگریز حکمرانوں کی چھترچھائوں تلے بااثر ہوگئے ۔ عام لوگ انہیں ہی حکمران تصور کرنے لگے ۔ عام زندگی میں ایک عام آدمی کو انگریز حکمرانوں کی بجائے ان دیسی حکمرانوں سے ہی واسطہ پڑتا تھا۔ انگریزوں کا عہد مجموعی طور پر جاگیرداروں ، راجوں ، مہاراجوں اور نوابوں کے اثر رسوخ کا ہی دور تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری سیاست میں جاگیرداری نظام ہی کارفرما رہا۔ تمام سیاسی جماعتیںنامزدگی سے چلائی جانے لگیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ ، لیاقت، دیانت غیر ضروری صفات قرار پائیں۔ آج میرے شہر گوجرانوالہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے تین پولیٹیکل ایڈوائزر مقرر کئے گئے ہیں۔ یہ بیچارے قانون اور آئین ، حکومت اور ریاست میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ ان بیچاروں نے وزیراعلیٰ پنجا ب کو کیا سیاسی مشورے دینے ہیں۔ بس حکومتی جماعت کی جانب سے اپنے قاصہ لیسوں کو نوازنے کا سرکاری بندوبست کیاگیا ہے ۔ جب ہم اپنے ملک میں جمہوریت کے فروغ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں خاصی مایوس کن صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔سیاسی جماعتو ں میں وہی جاگیردارانہ ذہن کار فرما ہے ۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف نے تو ایک مرتبہ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی کا نام سن کر ہی میرا خون کھولنے لگتا ہے ۔ پھر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی ایک جاگیرکے وفادار کارندے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ دوسری سیاسی جاگیر کے کارندوں کو نہ صرف یہ کہ برداشت نہیں کرتے بلکہ شدید نفرت کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم پاکستان بینظیر بھٹو کا لاہور آمد پر ایئرپورٹ پر استقبال نہیں کرتے رہے ۔ آج عمران خان بھی ایک جاگیردار کی طرح اپنے مخالفین کو جوتے کی نوک پر رکھنا اور ایک روایتی جاگیردار کی طرح عدالتوں کے دروازوں کو ٹھڈا مار کر کھولنا چاہتے ہیں۔