لاہور(کامرس رپورٹر )اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اگست میں عالمی سطح پر ریکارڈ بلندی پر پہنچنے کے بعد بھی بڑھ رہی ہیں اور یہ صورتحال کمزور اقوام پر بہت زیادہ بوجھ ڈالنے کے علاوہ عالمی اقتصادی بحالی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈی نیٹر مہر کاشف یونس نے ”گولڈ رِنگ اکنامک فورم“ کے زیراہتمام ”روس یوکرین جنگ کے تناظر میں خوراک، تیل اور گیس کی قیمتوں کے پاکستانی معیشت پر اثرات“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں گزشتہ سال 23.1 فیصد اضافہ ہوا، جو ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے تیز رفتار اور 1961 کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ اب یوکرین میں جنگ اور روس پر پابندیوں کی وجہ سے 2 بڑے زرعی ممالک میں پیداوار اور شپمنٹ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا دنیا کی گندم کی کل برآمدات میں حصہ تقریباً 30 فیصد اور مکئی میں 18 فیصد ہے۔ یہ تجارت زیادہ تر بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے جو کہ اب بند ہو چکی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، گندم اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ نسبتاً کم ہے تاہم کھاد کی سپلائی میں کمی اور تیل کی بلند قیمتوں کی وجہ سے فصل کی کٹائی، نقل و حمل سیلاب کی تباہ کاریورں اور خوراک کی پراسیسنگ کے اخراجات بڑھ سکتے ہیں۔
مہر کاشف یونس نے کہا کہ پالیسی سازوں کو غریب ترین افراد کیلئے سماجی امداد میں اضافے کے ذریعے غذائی عدم تحفظ کو روکنا چاہیے۔ چین جس کے پاس دنیا بھر کے گندم اور مکئی کے نصف سے زیادہ ذخائر ہیں۔ قیمتیں کم کرنے کیلئے پاکستان کو سپلائی جاری کرنے پر غور کر سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر تنازع طویل عرصے تک جاری رہا تو پاکستان سمیت مزید ممالک کو سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مستقبل میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو گا کیونکہ اس کی کمزور معیشت اس طرح کے جھٹکے کو برداشت نہیں کر سکتی۔ تعمیراتی صنعت کو بھی نقصان پہنچا ہے کیونکہ پاکستان یوکرین سے سٹیل درآمد کر رہا تھا جبکہ یوکرین کو پاکستان کی برآمدات بھی بند ہو چکی ہیں جس سے لوکل انڈسٹری اور معیشت دونوں متاثر ہو ں گی۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ پاکستان، انڈونیشیا اور مصر کے بعد یوکرین سے گندم درآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان اس وقت مہنگائی کی بلند ترین شرح سے دوچار ہے اور گزشتہ جون تک اس کا تجارتی خسارہ 50 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کیلئے اس صورتحال سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ یہاں کے عوام کو اس ابھرتی ہوئی بدترین صورتحال کا ہمت سے مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ان مشکل حالات سے دوچار ہے۔
قیمتوں میں اضافہ،عالمی اقتصادی بحالی راہ میں رکاوٹ ہے:مہر کاشف یونس
Sep 05, 2022