تحریر:غلام شبیر عاصم
تاریخ خود کو دہرا رہی ہے
بعض باتیں،کہاوتیں،فقرے اور محاورے زبان زد عام ہوجاتے ہیں۔ کسی کے ذہن پر ان کے مفاہیم و مطالب پوری طرح نہ بھی کْھل سکیں تو یہ مسلسل استعمال کی وجہ سے ذہنوں اور زبانوں کی مسافت میں محوِ سفررہتے ہیں۔میں نے کئی بار یہ فقرہ سنا اور پڑھا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،لیکن مجھے کبھی بھی اس بات کی ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں آئی کہ تاریخ اپنے آپ کو کیسے دہراتی ہے۔اور اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہوتے ہیں۔میں تو اپنی عقل کے مطابق ہمیشہ یہی خیال کرتا آیا ہوں کہ کسی ایک ماہ کی کوئی تاریخ جب آئیندہ مہینہ میں آتی ہے تو اس کو تاریخ کا دہرانا کہتے ہیں،جیسے کہ مثال کے طور پر 5 اگست کے بعد جب 5 ستمبر کا دن آئے تو یہ ہے تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا۔مگر یہ گتھی تو ماسٹر صدیقی صاحب نے کچھ یوں سلجھائی کہ ماضی کے حالات و واقعات،رسم و رواج اور رویوں کا کسی زمانہ میں پلٹ آنا،دراصل تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا ہے۔جیسے کہ ماضی بعید میں لوگ سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے،معاشرتی اور ثقافتی رسمیں محدود تھیں،دولت اگر تھی بھی تو خرچ کرنے کے مواقع بہت زیادہ نہیں ہوتیتھے محدود سے اخراجات ہوتے تھے۔اکثر کے پاس ایک جوتا اور ایک یا دو لباس ہوتے تھے۔بعض کے پاس جوتا ہوتا ہی نہیں تھا،جب کسی کے ہاں مہمان کی حیثیت سے جانا ہوتا تو جوتا کسی سے وقتی طور پر مانگ لیا جاتا تھا۔البتہ ایک گاوں میں ہر دوسرے تیسرے گھر میں حقہ ضرور ہوتا تھا اور حْقہ"حلقہ"کی مثال رکھتا تھا کیونکہ حقہ"حلقہ یاراں"کا ماحول پیدا کردیتا تھا،بہت سارے لوگ ایک حقہ کے گرد اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ بھی مارتے اور باتوں باتوں میں بڑے بڑے فیصلے بھی کرکے اٹھتے تھے۔ایک ہی حقہ پورے"حلقہ یاراں"کے پینے کے کام بھی آتا اور بھائی چارے کے کلچر کو بھی پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔لوگ اس زمانے میں میلوں پیدل چلتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔کرایہ خرچنے کا اگر تصور تھا بھی تو کسی لمبی مسافت کے لئے کرایہ بھرنا ضروری خیال کیا جاتا تھا۔اب یہ حال ہے کہ پرانے زمانے کی نسبت انسانوں کی خواہشات،ضروریات اور ترجیحات میں حیران کن تغیر اور اضافہ سامنے آچکا ہے۔عجیب رسمیں انسانوں کو جونکیں بن کر چمٹ گئی ہیں جو خون چوس رہی ہیں،ان رسموں سے خلاصی ناممکن نظر آرہی ہے۔بلکہ ہم ان رسموں کو اپنے نام وننگ کے لئے مذہبی رسومات جیسی اہمیت دے چکے ہیں۔ماضی کا طرزِ زندگی ہر طرح سے مفید و منفرد تھا۔اس ماضی کو بسر کرنے والے موجودگان آج بھی خواہش رکھتے ہیں کہ اس سنہرے اور تفکرات سے پاک دور میں پلٹ جائیں۔لیکن ایساہونا ناممکن لگتا ہے،بس سوچنے ہی میں مزا لیا جا سکتا ہے۔مگر سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے شب و روز کی مغز ماری کے بعد بڑی مشکل سے عوام کو اس قدیم طرز زندگی میں پہنچانے کی کوشش کی ہے۔آج کل جو ملکی صورت حال بنا دی گئی ہے،اس کے تناظر میں مجبورا?? رویوں اور ضرورتوں کا بدلنا ہی تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا۔عوام اس نہج پر ہیں کہ اب روکھی سوکھی کھائیں گے اور لقمہ اندر اترنے پر صدق دل سے اللہ پاک کا شکر ادا کریں گے۔دس دس لباس رکھنے والے اب ایک دو لباسوں تک آجائیں گے۔دولت کی فراوانی کی بنیاد پر بنائی گئی ان گِنت عجیب رسمیں اب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے الگ کردی جائیں گی۔پیٹرول اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے مہنگائی جس سطح پر آگئی ہے لوگ اب پرہیزی کھانا کھائیں گے۔خطرناک امراض کی وجہ بننے والے پیزوں،شوارموں اور دیگر فاسٹ فوڈز کے شوقیہ کلچر سے جان چھوٹ جائے گی۔گھر کے معیاری کھانے کو مضرِ صحت سمجھ کر باہر کے زہریلے کھانوں کو اسٹیٹس سمبل بنانے والے"کن ٹْٹے"شاید صحت کے اصولوں کے مطابق راہ راست پر آجائیں گے۔زیادہ کرایہ ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے کے سبب لوگ اب پیدل بھی چلیں گے جس کے لئے ڈاکٹرز نصیحت کرتے تھے لیکن لوگ وسائل ہونے کی وجہ سے اس نصیحت پر عمل کرنا اپنی توہین خیال کرتے تھے۔ایک سے دوسری گلی تک جانے کے لئے بھی موٹر سائیکل استعمال کرتے تھے۔اس سہل پسندی کے باعث جسم لاغر اور شوگر زدہ ہوگئے تھے۔اب کم کھانے اور پیدل چلنے سے شوگر،بلڈ پریشر،دل اور معدہ کے امراض سے جان چھوٹ جائے گی۔ملک کے عوام جو چلنے سے قاصر تھے وہ اب دوڑتے ہوئے نہیں تھکیں گے۔معاشرہ اب صحت مند ہونے جارہا ہے۔یہ مہنگائی کے وہ نتائج ہیں جن کے ثمرات ہماری شرح اموات اور بیماریوں کے گراف کو نیچے گرادیں گے۔سیاستدان اور بیوروکریٹس مل جل کر یہ ایسا انقلاب لا رہے ہیں کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔ہمارے ملک میں سڑکوں پر ٹریفک کا بہت زیادہ رش سڑکوں کے لئے بوجھ بن گیا تھا۔سڑکوں پر آلودگی کی بہتات برداشت سے باہر تھی۔اب تیل کی قیمت اور کرائے بڑھنے سے سڑکوں پر ٹریفک کے رش اور آلودگی میں بھی خاطرخواہ کمی آئے گی۔حضرت اقبال کے شاہین جو کرگس بنتے جارہے تھے،ون وِیلنگ اور آوارگی جن شاہینوں کے پروں کو کاٹ رہی تھی،ان شاہینوں کی آوارگی تقریبا?? ختم ہوجائے گی۔مہنگے ترین سگریٹ چھوڑ کر حْقہ تپانے اور پینے پلانے کا دور آنے والا ہے۔ایک حْقہ ایک وقت میں دسوں افراد کی سگریٹ نوشی کی عادت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا۔یہ سب مثبت تبدیلیاں ناممکن تھیں جوکہ اب مہنگائی کے ثمرات کی شکل میں بہت جلد سامنے آنے والی ہیں۔ماسٹر صدیقی فرما رہے تھے کہ تاریخ اب خود کو دہرا رہی ہے۔کالونی سسٹم جو سیلاب کے پانی کی طرح زرعی رقبہ کو ختم کرتے ہوئے اونچے درجہ کے سیلاب کی طرح پھیلتا جارہا تھا،گمان تھا کہ اب کھیتی باڑی مکانوں کی چھتوں پر ہوگی،اب برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجہ میں کالونی سسٹم کا سیلاب بھی تھر کے مناظر پیش کرے گا۔جہاں سے جتنی کسی نے دیواریں اٹھائی ہوں گی وہیں روک دے گا۔مہنگائی نے لوگوں کی خواہشات کو قتل اور کاریگروں کے دستِ ہْنر کو کاٹ دیا ہے۔لگتا ہے اب پھر سے جنگل بیلے میں رانجھا "م?جھیاں" یعنی بھینسیں چرائے گا اور ونجلی کی تان ہر طرح کے شور کو"مست کرکے"بے اثر کردے گی۔اور لوگ سکون سے زندگی بسر کریں گیٹریکٹر اور دیگر مشینی زرعی آلات کی جگہ لکڑی کی ہ?ل اور سہاگہ لے لیں گے۔اب یہ بعید نہیں کہ ماضی بعید کی طرح ہم صبح سویرے بیلوں کی گردن میں حمائل ٹلیوں اور گھونگھرووں کی مدھر آواز سن سکیں گے۔ٹریفک کے شور سے کوئل کی آواز دریافت کر سکیں گے۔کیونکہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
کالم:لفظوں کا پیرہن
Sep 05, 2023