باز گشت …طا رق محمود مرزا،آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com
اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ تخلیقِ پاکستان ہے اور اس واقعہ کا سب سے عظیم کردار قائد اعظم محمدعلی جناح ہے ۔اس لیے برصغیر کی تاریخ کی کوئی کتاب چاہے دوست نے لکھی ہو یا دشمن نے، مخالفت میں لکھی ہو یا حق میں ، محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوںکے ذکر سے خالی نہیں ہے ۔ یہ قائد اعظم کی کرشماتی شخصیت بلند کردار اور اعلیٰ حکمت عملی کا کمال تھا کہ انھوں نے انگریزوں اور ہندؤں کی تمام تر مخالفت کے باوجود دو قومی نظریے کی بنیاد پر برطانوی سامراج کو برصغیر پاک و ہند کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا۔کانگریس اور اس کے قائدین مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور ابو الکلام آزاد کی سر توڑکوشش تھی کہ پاکستان کو معرض وجود آنے سے روکنا ہے۔جہاں تک ہندوستان کی آزادی کا تعلق ہے وہ تو ناگزیر تھی کیونکہ انگریز خود ملک چھوڑ کر جا رہے تھے ۔تاہم کانگریس اور اس کے قائدین اپنے دوسرے مقصد میں بری طرح ناکام ہوئے اور ان کی تمام مخالفانہ بلکہ معاندانہ کوششوں کے باوجود پاکستان بن کر رہا ۔ انگریز بھی کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ ان کی پاکستان دشمنی تقسیم ہند میں کی گئی دھاندلیوں اور بعد میں منظرِ عام پر آنے والے بیانات سے عیاں ہے۔ لیکن وہ بھی قیامِ پاکستان کی راہ میں زیادہ دیر تک حائل نہ ہوسکے اور اللہ کے فضل سے پاکستان دُنیا کے نقشے پر اُبھر کر رہا۔اپنی بے مثال قائدانہ صلاحیتوں سے ان تمام مشترکہ رکاوٹوں کو دور کرنے والا اور قوم کو منزل مقصود تک پہنچانے والا ایک دھان پان سا شخص تھا جسے مقامی زبان بھی نہیں آتی تھی ۔ جو نحیف بھی تھا اور بیمار بھی ۔ جس کی قوم بھی پس ماندہ تھی ۔لیکن جو عزم ِ صمیم کا مالک تھا ۔ جو سچا اور کھرا تھا ۔ جو اُصولوں پر ایسے ڈٹ جانے والاتھا کہ مخالفین بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں ۔جو خوش گفتار بھی تھا اور خوش لباس بھی ۔ جو خود زمین پر تھا لیکن نظر آسمانوں پر تھی ۔ یہ تھے برصغیر کے مسلمانوں کے نجات دہندہ ، بیسویں صدی کے عظیم مدبّر اور مملکت خداد پاکستان کے خالق حضرت قائد اعظم محمد علی جناح۔ان کے بارے میں مفکر اسلام شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔’’ حصولِ ا ٓزادی کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ مسلم لیگ اور قائد اعظم کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ بلاشبہ نہ تو وہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ‘‘
دوست اور دشمن کسی کو بھی اس بات میں شبہ نہیں کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہیں بنتا ۔ اسی لیے لارڈ ماونٹ بیٹن نے بعد میں کہا تھا ــ’’ اگر ہمیں علم ہو جاتا کہ جناح مہلک بیماری میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تو ہم تقسیم ہند کی تاخیرکر کے پاکستان بننے سے روک سکتے تھے کیونکہ مسلم لیگ کے دیگر رہنمائوں پرقابو پانا مشکل نہیں تھا‘‘ یہ بات خود قائد بھی جانتے تھے۔ لہذا ان کی زندگی کے آخری ایام میں جب وہ زیارت میں مقیم تھے ان کے ڈاکٹر الہی بخش نے مختلف ٹسٹ کرانے کے بعد پہلے فاطمہ جناح اور پھر قائد کو بتایا کہ انھیں ٹی بی ( تپ دق) ہے توقائد نے اطمینان سے جواب دیا ’’ اس بات کا علم تو مجھے بارہ سال سے ہے ۔ میں نے یہ بات ہر ایک سے اس لیے چھپا کر رکھی تاکہ انگریز اور ہندو اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ‘‘ قائد کا یہ خدشہ بے بنیاد نہیں تھا اگربمبئی میں ڈاکٹر پٹیل کے کلینک میں محفوظ ان کی رپورٹ قبل از وقت افشا ہو جاتی تو آج ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔حتیٰ کہ برطانوی خفیہ ایجنسی بھی اس راز سے آشنا نہیں تھی ۔ڈاکٹر نے یہ مرض تشخیص کیا تو انھیں آرام کا مشورہ دیا تھا لیکن مسلمانانِ ہند کے حالات دیکھ کر وہ آرام کیسے کر سکتے تھے۔ وہ اس وقت مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ بیماری سے نہ ڈرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم موت سے خوف زدہ نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے عظیم مفکر دوست اقبالؔ سے متاثر تھے، جنھوں نے فرمایا تھا ۔:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
یہ ہے شام زندگی صبح ِ دوامِ زندگی
قائد اعظم کی شخصیت اور ان کے کردار کے حوالے سے ان کے عم عصر مشاہیر کی رائے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں مشہور ہندو رہنما وجے لکشمی پنڈت نے قائداعظمؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ’’مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔
مشہور برطانوی مئورخ Stanly Wobert نے چند الفاظ میں قائد کی شان بیان کردی ’’ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کا دھارا تبدیل کر سکتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جنھوں نے دُنیاکا نقشہ بدلا ہے اور ایسے تو تقریباً نایاب ہیں جنھوں نے نیا ملک تخلیق کیا ہو ۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔‘‘ کانگریس کی صدر اور شاعرہ سروجنی نائیڈو لکھتی ہیں ’’ جناح اپنے نظریات وخیالات پیش کرنے میں فن کارانہ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ جب وہ کسی پیچیدہ مسئلے پر اظہار خیال کرتے تو اسے انتہائی سادہ اور شفاف بنا کر پیش کرتے۔‘‘ 1917 میںہندوستان کے انگریز سیکرٹری آف سٹیٹ Edwin Montgue نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے’’ ہندوستان کے جتنے سیاست دانوں سے میں ملا اس میں سے جناح نے سب سے زیادہ متاثر کیا ‘‘
برطانیہ کے کنزرویٹو ممبر John Biggs-Davison نے لکھا ہے ’’ گاندھی کے بغیر بھی ہندوستان کوآزادی مل جاتی ۔ لینن او رمائو کے بغیر روس اور چین میں کیمونسٹ انقلاب آ جاتا ، لیکن جناح کے بغیر 1947 میں پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔‘‘
اس تمام بحث کا ماخذ یہ ہے کہ قدرت نے مسلمانانِ ہند کو قائد اعظم کی صورت میں ایسا لیڈر عطا کیاجس نے اپنی عظیم قائدانہ صلاحیتوں سے قوم کو بیک وقت انگریز اور ہندو سے آزادی دلا کر ایک نیا وطن دے دیا جس میں ہم کسی خوف و خطر کے بغیر آزادانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ پاکستان بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے خالق کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ اس کی عطا کردہ امانت، اسلام کے اس قلعے، پاکستان کو مضبوط بنایا جائے ۔ اسے قائد اور اقبال کی سوچ کے مطابق ڈھالا جائے ۔ جہاں امن ہو ، بھائی چارہ ہو اور قانون کی حکمرانی ہو اور جہاں ہر شخص کی جان او رمال محفوظ ہو ۔ اس کے لیے ہمیں قائد کے فرمان اتحاد، ایمان اورنظم پر عمل کی ضرورت ہے ۔قائد کی بے مثال شخصیت، ان کا منفردطرزِ عمل اور ان کے سنہرے اُصول ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔
ملت ہوئی زندہ پھراس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح